Column

نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور عصر حاضر کی یلغار

مفتی محمد وقاص رفیع

علم کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ آج کے اس دور میں تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ زندگی کے لئے سانس کی آمد و رفت ۔ ایک بچہ کے لئے اس کی ماں کی گود اس کا سب سے پہلا مدرسہ ہوتا ہے۔ ایک نومولود جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ بالکل معصوم اور فرشتہ کی طرح ہر گناہ سے پاک ہوتا ہے ۔ تمام دنیاوی امور اور مسائل سے آزاد ہوتا ہے ۔ لیکن جیسے جیسے وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل کو طے کرتے ہوئے اپنی طفلانہ زندگی کا آغاز کرتا ہے تو ہر ایک شے لاشعوری طور پر اس کے سامنے آجاتی ہے۔ بچہ جب اپنی ماں کی گود سے اترتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے گھرکی زمین پر قدم رکھتا ہے۔ گویا اسے یہیں سے اپنے اطراف کے ماحول کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ اپنے اطراف کے ماحول سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان چیزوں کو قبول کرنے لگ جاتا ہے جو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ چناں چہ حدیث مبارک میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اُس کے ماں باپ اسے یہودی ۔ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے جانور صحیح و سالم بچے کو جنم دیتا ہے کیا اِس میں تمہیں کوئی کان کٹا نظر آتا ہے؟ ( صحیح بخاری: 1270، صحیح مسلم:4803)۔
سماجی نقطہ نظر سے ایک بچے کا سماج اس کا گھر ہوتا ہے اور بچہ اپنے اس ماحول کے تمام طور طریقوں سے مطابقت کرنا یاتو خود سیکھتا ہے یا والدین اسے سکھاتے ہیں ، اس میں مرکزی کردار ماں کا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ باپ تو تلاش معاش میں گھر سے باہر چلا جاتاہے ۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہے تو سب سے پہلے بچے کو لکھنا پڑھنا سکھاتی ہے ۔ لیکن ماں اگر اَن پڑھ ہے تو وہ بچے کی چنداں فکر نہیں کرتی ۔ لہٰذا بچہ اس سے آزاد اور کھیل کود میں مگن رہتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے تو اس میں وہ دلچسپی اور رغبت مفقود ہوتی ہے جو تعلیم یافتہ ماحول سے آنے والے بچوں میں ہوتی ہے۔ حدیث مبارک میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اُس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرے وہ علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے تیسرے نیک اولاد جو اُس کے لئے دُعا کرتی رہے۔ ( صحیح مسلم: 3084)
ماں کی گود کے بعد اور سکول میں داخلہ سے پہلے ایک بچہ کا جو مکتب ثانی ہوتا ہے وہ اس کا گھر اور آس پاس کا ماحول ہوتا ہے ۔ گھر کے باہر کا ماحول بھی بچہ کو اتنا ہی متاثر کرتا ہے جتنا کہ گھر کے اندر کا ۔ عموماً بچے گھر کے باہر نازیبا کلمات اور گالم گلوچ سیکھتے ہیں اور اس کا ردّ عمل کم و بیش گھر میں بھی دکھائی دیتا ہے ۔ بھائی بہن کی لڑائی میں ان کی زبان سے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کلمات نکل جاتے ہیں ۔ یہ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بیرونی ماحول سے اپنے ہم عمر بچوں کی زبان سے سننے والی باتیں جلدی قبول کر لیتے ہیں ۔ مشترکہ خاندانوں میں بچے زیادہ نفسیاتی اور حساس ہوتے ہیں ۔ مشترکہ خاندانوں میں افراد کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب توتو میں میں عام بات ہوتی ہے اور دو افراد کے درمیان ردّ عمل کو جب دیکھتے ہیں تو اس کا اثر قبول کر لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر بچے گھر کے باہر لڑائی جھگڑوں میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ اگر مشترکہ خاندان میں بچوں کے سامنے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو بچے اسی رَو میں بہنا شروع ہوجائیں، جس کے نتیجہ میں آگے چل کر خاندان کے دوسرے افراد بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔ تجربات و مشاہدات یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ بچوں کا ذہن ا ور ان کا دماغ ایک کورے کاغذ کی طرح صاف ہوتا ہے ، بچپن میں جو باتیں یا عادتیں انہیں سننے یا دیکھنے کو ملتی ہیں وہ ان کے دل و دماغ میں منقش ہوجاتی ہیں اور جوں جوں وہ بڑے ہوتے رہتے ہیں ووں ووںوہ باتیں بھی پروان چڑھتی رہتی ہیں ۔
اس وقت ہمارا سب سے اہم اور بڑا ایشو سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی ہے، کیوں کہ اس وقت سوشل میڈیا ہماری نوجوان نسل کے سنہرے مستقبل کے لئے ایک کڑی آزمائش بن کر سامنے اُبھر آیا ہے۔ اس حوالے سے بھی والدین کی یہ اوّلین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بارے میں کوئی دو ٹوک فیصلہ کریں کہ اپنی اولاد کو کس عمر میں انٹرنیٹ اور سمارٹ فون تک رسائی دینی چاہیے؟ اور پھر جب رسائی دے دی تو اس دوران ان کی مناسب بنیادی تربیت اور نگرانی بھی نہایت ہی ضروری ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد بنا کسی اعتدال اور رہنمائی کے اپنے قیمتی وقت کا ایک بہت بڑا حصہ سمارٹ فون، انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا پر صرف کر رہے ہیں جس سے نہ صرف ان کی ذہنی نشو و نما اور اخلاق پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ اس سے ان کی جسمانی نشو نما اور صحت بھی کافی حد تک متاثر ہوتی نظر آتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں چوں کہ تعلیم و تربیت کا معیار کافی بلند اور بہتر ہوتا ہے اس لئے عمومی طور پر وہاں کے والدین اور اساتذہ سوشل میڈیا کے استعمال اور بھر میں میڈیا پر دستیاب مواد کے متوقع ناظرین یا قارئین کے لئے عمر کی درجہ بندی کا سسٹم موجود ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ٹی وی پروگرام، فلم اور ڈرامہ، کتاب و رسالہ اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس کو دیکھنے یا انہیں استعمال کرنے کے لئے کم از کم اپنی عمر کی حد بیان کرنا ضروری ہوتا ہے جس کو ایج ریٹنگ کہا جاتاہے جوکہ ایک قانونی اور اخلاقی پابندی کا کام دیتا ہے۔ پاکستان میں یہ سسٹم تاہنوز موثر طور پر رائج ہوکر نافذ نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے پاکستانی کم عمر بچے اور نوجوان بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بے دریغ اور بلا کسی جھجھک کے بڑی آزادی کے ساتھ استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث مبارک میں اس حوالے سے والدین کے لئے بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے، چناں چہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم سب کے سب ذمہ دار ہو ، اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ امام ( حکمران) ذمہ دار ہے اُس سے اُس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں نگران ہے اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اُس سے اُس کی رعایا ( گھر اور گھر والوں) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اُس سے اُس کی رعیت ( آقا کے مال و اسباب) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس طرح تم سب ( اپنے اپنے دائرے میں ) نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ( صحیح بخاری:844، صحیح مسلم:1627)۔
اب غورطلب امر یہ ہے کہ جب دنیا کے تقریباً تمام ہی ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں بھی کم عمری میں کچے ذہنوں کا تحفظ لازمی خیال کیا جاتا ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوری طور پر اس حوالے سے ضرور کوئی مثبت اور قانونی پیش رفت کی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ہم بحیثیت سرپرست دیگر ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ ہوکر تیز رفتاری سے ان کے ہم رکاب ہوں اور اپنی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے عروج و ترقی کی منازل کو طے کرکے اپنی نسل نو کی حفاظت کا سامان کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button