تازہ ترینخبریںدنیا

سابق صدر ٹرمپ کالم نگار پر جنسی حملہ کرنے کے مرتکب قرار، 50 لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم

امریکہ کی ایک عدالت نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سنہ 1990 کی دہائی میں نیویارک کے ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور میں ایک میگزین کی کالم نگار کو جنسی استحصال کا نشانہ بنانے کا مرتکب قرار دیا ہے۔

تاہم جیوری نے ڈونلڈ ٹرمپ کو سٹور کے ڈریسنگ روم میں ای ژاں کیرول کو ریپ کرنے کا ذمہ دار نہیں پایا ہے۔

جیوری نے مسٹر ٹرمپ کو مصنفہ کے الزامات کو ’افواہ اور جھوٹ‘ قرار دینے پر ہتک عزت کے مقدمے کا ذمہ دار بھی قرار دیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب مسٹر ٹرمپ جنسی حملے کے باقاعدہ ذمہ دار قرار پائے گئے ہیں۔

مین ہٹن کی جیوری نے سابق صدر ٹرمپ کو متاثرہ خاتون کو تقریباً 50 لاکھ امریکی ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔

چھ مردوں اور تین خواتین پر مشتمل جیوری منگل کے روز تین گھنٹے سے بھی کم وقت تک غور و خوض کے بعد اپنے اس فیصلے پر پہنچی۔

متاثرہ خاتون کیرول نے فیصلے کے بعد ایک تحریری بیان میں کہا کہ ’آج، دنیا آخرکار حقیقت جان گئی ہے کہ سچ کیا ہے۔ یہ جیت صرف میری نہیں ہے بلکہ ہر اس عورت کی ہے جس نے اس لیے تکلیف اٹھائی ہے کہ اس پر یقین نہیں کیا گیا۔‘

ٹرمپ کے وکیل نے کہا کہ سابق صدر اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

چونکہ یہ مقدمہ فوجداری کے بجائے سول عدالت میں تھا اس لیے مسٹر ٹرمپ کو جنسی مجرم کے طور پر رجسٹر کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

سابق صدر متاثرہ خاتون کیرول کے الزامات کی ماضی میں تردید کرتے رہے ہیں اور انھوں نے مین ہٹن کی وفاقی عدالت میں دو ہفتے تک جاری رہنے والے دیوانی مقدمے میں شرکت نہیں کی تھی۔

جب فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو 79 سالہ ای ژاں کیرول نے اپنے دونوں وکلا کے ہاتھ تھام رکھے تھے اور جب جیوری کی طرف سے ہرجانہ ادا کرنے کی بات کی گئی تو وہ مسکراتی نظر آئیں۔

سماعت کے ختم ہوتے ہی سابق صدر ٹرمپ کے وکیل جو ٹاکوپینا نے اُن سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا: ’مبارک ہو، آپ خوش قسمت رہیں۔‘

مدعی کی وکیل روبرٹا کپلن نے ایک بیان میں کہا: ’یہ نہ صرف ای ژاں کیرول کی بلکہ خود جمہوریت کی اور ہر جگہ بچ جانے والوں کی فتح ہے۔‘

فیصلے کے بعد 76 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اپنے پیغام میں لکھا کہ: ’مجھے بالکل نہیں معلوم کہ یہ عورت کون ہے۔‘

’یہ فیصلہ ایک ذلت ہے، اب تک کے سب سے بڑے وچ ہنٹ کا حصہ ہے!‘

یاد رہے دیوانی مقدمات میں شواہد کا معیار فوجداری مقدمات کی نسبت کم ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ججوں کو صرف یہ معلوم کرنے کی ضرورت تھی کہ مسٹر ٹرمپ نے کیرول کو تشدد کا نشانہ بنایا کہ نہیں۔‘

اگر چہ جیوری نے مسٹر ٹرمپ کو مس کیرول کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ہتک عزت کا ذمہ دار پایا ہے لیکن انھوں نے مسٹر ٹرمپ کو ان کے ساتھ ریپ کا ذمہ دار نہیں پایا۔ ایسا کرنے کے لیے جیوری کو اس بات پر یقین کرنے کی ضرورت ہوتی کہ ٹرمپ نے کیرول کے ساتھ اُن کی رضامندی کے بغیر جنسی تعلق قائم کیا تھا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران مس کیرول اور مسٹر ٹرمپ کے وکلا کے درمیان سخت جرح دیکھنے کو ملی۔

کیرول کی قانونی ٹیم نے ان کے دعوؤں کی تصدیق کے لیے 11 گواہوں کو یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیا کہ آیا مسٹر ٹرمپ نے سنہ 1995 یا 1996 میں لگژری سٹور کے لنجری (خواتین کے زیر جامہ) ڈپارٹمنٹ میں ان کو نشانہ بنایا تھا۔

ان میں دو ایسی خواتین بھی شامل تھیں جنھوں یہ بھی بتایا کہ انھیں بھی کئی دہائیوں قبل مسٹر ٹرمپ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک خاتون نے ججوں کو بتایا کہ مسٹر ٹرمپ نے سنہ 1970 کی دہائی میں ایک پرواز کے دوران انھیں جنسی طور پر چھوا تھا یعنی چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ جبکہ دوسری خاتون نے کہا کہ مسٹر ٹرمپ نے ان کا اس وقت زبردستی بوسہ لیا تھا جب سنہ 2005 میں لکھے جانے والے اپنے ایک مضمون کے لیے وہ ان کا انٹرویو کر رہی تھیں۔

کیرول کے دو دیرینہ دوستوں نے یہ گواہی دی کہ اس واقعے کے فورا بعد کیرول انھیں اس کے بارے میں بتایا تھا۔

اپنے موقف کو بیان کرتے ہوئے کیرول نے اس واقعے کو تفصیل سے بتایا کہ سٹور میں ان کے ساتھ کیا ہوا جس کے نتیجے میں وہ بڑے صدمے سے گزریں۔

انھوں نے عدالت کو بتایا: ’میں یہاں ہوں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے میرا ریپ کیا اور جب میں نے اس کے بارے میں لکھا تو اس نے جھوٹ بولا اور کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘

مسٹر ٹرمپ نے کسی گواہ کو پیش نہیں کیا اور صرف ایک ویڈیو میں وہ بیان دیتے نظر آئے جسے ججوں کے لیے چلایا گیا جس میں انھوں نے ریپ کے الزمات سے انکار کیا تھا۔

مسٹر ٹرمپ نے فوٹیج میں کہا کہ ’یہ سب سے زیادہ مضحکہ خیز، نفرت انگیز کہانی ہے۔ یہ ایک بنائی ہوئی کہانی ہے۔‘

متاثرہ خاتون کیرول کے مقدمے میں یہ بھی دلیل دی گئی کہ مسٹر ٹرمپ نے اکتوبر سنہ 2022 میں اپنی سوشل میڈیا سائٹ پر ایک پوسٹ میں ان کی بدنامی کی تھی جس میں انھوں نے ان کے دعووں کو ‘مکمل فریب والا کام’ اور ‘ایک دھوکہ اور جھوٹ’ قرار دیا تھا۔

کیرول کی قانونی ٹیم نے استدلال کیا کہ مسٹر ٹرمپ نے بیان بازی کے دوران خود ’اپنے خلاف گواہ‘ کے طور پر کام کیا جب انھوں نے 2005 کی ریکارڈنگ میں کیے گئے تبصروں پر مزید زور دیا۔

سنہ 2016 میں لیک ہونے والی ‘ایکسیس ہالی وڈ’ ٹیپ کے نام سے مشہور آڈیو میں، مسٹر ٹرمپ نے خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ سٹارز کو ان کے ساتھ ‘کچھ بھی’ کرنے دیں، بشمول ان کے جنسی اعضاء کو پکڑنے کے۔

کیرول کی وکیل نے کہا کہ انھوں نے مز کیرول کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

ریکارڈڈ ویڈیو بیان میں مسٹر ٹرمپ ایک موقع پرایک تصویر دیکھتے ہوئے مز کیرول کو اپنی سابقہ بیوی مارلا میپلز سمجھ بیٹھے جس پر مز کیرول کے وکلاء نے ان کے اس دعوے کو چیلنج کیا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ‘ان کی قسم کی نہیں’ تھیں۔

مسٹر ٹیکوپینا نے مز کیرول کی کہانی پر مشکوک قرار دینے کی کوشش کی اور اسے انھوں نے ‘افسانوی’ کہا۔

انھوں نے سوال کیا کہ مز کیرول نشانہ بنائے جانے کی تاریخ کیوں نہیں بتا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ دلیل دی کہ اس کی وجہ سے مسٹر ٹرمپ کو اس وقت جائے واردات پر عدم موجودگی کا موقعہ چھین لیا گیا ہے۔

مسٹر ٹیکوپینا نے کہا: ‘بغیر تاریخ، بغیر مہینے، بغیر سال کے آپ وہاں اپنی غیر موجودگی پیش نہیں کر سکتے، آپ گواہوں کو نہیں بلا سکتے۔ وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ آپ اس سے اتنی نفرت کریں کہ حقائق کو نظر انداز کردیں۔’

مسٹر ٹیکوپینا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انھوں نے پولیس کو جرم کی اطلاع کیوں نہیں دی یا جب ایسا ہوا تو انھوں نے چیخ پکار کیوں نہیں کی۔

جب نیویارک نے سنہ 2022 میں بالغ بچ جانے والوں کا قانون پاس کیا تو ایلے میگزین کی سابق کالم نگار کو مسٹر ٹرمپ کے خلاف دیوانی مقدمہ لانے کا موقع ملا۔

قانون نے متاثرین کو ریاست میں جنسی زیادتی کے مقدمے دائر کرنے کے لیے ایک سال کی مدت کی اجازت دی جس میں ایسے دعوے شامل ہیں جو عام طور پر قانون کی حدود سے تجاوز کر چکے ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button