ColumnKashif Bashir Khan

عوام اور کاخ و امراء ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

گزشتہ سال عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان اور اس کی سیاسی جماعت کے رہنمائوں اور ورکرز کو جہاں بدترین ریاستی جبر اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا وہاں دنیا بھر نے دیکھا کہ ماضی میں ملک پاکستان کے اربوں، کھربوں لوٹنے والے پھر سے مسند اقتدار پر بٹھا دیئے گئے، جنہوں نے ملک کی معاشی حالت کو تباہ و برباد کرنے کا بیڑا اٹھانے کے ساتھ ساتھ ریاستی مشینری کو اپنے کرپشن کیسوں کو معاف کرنے کا جب سلسلہ شروع کیا تو پھر دنیا بھر نے دیکھا کہ تمام ہی کلیدی حکومتی اور انتظامی عہدوں پر وہ ہی لوگ براجمان ہو گئے جو ماضی قریب میں عدالتوں کو نہ صرف کرپشن کے کیسوں میں درکار تھے بلکہ بہت سوں کو تو عدالتیں سزائیں بھی سنا چکی تھیں۔ مریم نواز اور نواز شریف بڑی مثالیں ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں نہ صرف عوام کو بدترین مہنگائی اور عوام کش پالیسیوں کی بدولت بے روز گاری میں مبتلا کیا گیا بلکہ ان کی حمایت میں بولنے اور لکھنے والوں کی زبان و قلم پر بھی قفل لگانے کی ہر ممکن مذموم کوششیں کی گئیں بلکہ اب بھی کی جارہی ہیں۔ تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ جو ملک گزشتہ سال مارچ ؍ اپریل میں تقریبا 17ہزار ارب ڈالر زرمبادلہ کا حامل تھا اس کے زر مبادلہ کے ذخائر آج دو ارب ڈالر سے تھوڑے سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کے عوام نے گزشتہ ایک سالہ دور میں جو کچھ دیکھا وہ قیام پاکستان کی75سالہ تاریخ سے منفرد ہے۔ منفرد اس طرح کہ عوام پر دکھوں اور ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ باقی خرافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے قارئین کو یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ گزشتہ سال تقریبا انہی دنوں میں پاکستان کے عوام پر بجلی کے بلوں میں ایک ایسا خوفناک اضافہ کیا گیا تھا جس نے لوگوں کے روزگار خرم کر دیئے تھے اور پاکستان بھر کے عوام بجلی کے بل ہاتھوں میں لے کر بجلی فراہم کرنے والی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے دفاتر میں ذلیل و خوار ہوتے پوری دنیا نے دیکھے تھے۔ یہ اضافہ دراصل عالمی مالیاتی فنڈ کے حکم پر پاکستان کی وفاقی حکومت جسے رجیم چینج کے تحت لائی گئی امپورٹڈ حکومت بھی کہا جاتا ہے، نے کیا تھا۔ اب قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف استعمار اور سامراج جس کا ’’ سرمور‘‘ امریکہ ہے، کے اشارے پر دنیا میں کمزور معیشت والے ممالک کو کس طرح اپنی گرفت میں لے کر صاحب بہادر اور استعمار و سامراج کے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ یہ ’’ بدمعاشی ٹیکس‘‘ جو وفاقی حکومت نے بجلی کے بلوں پر لگایا تھا اس کا نام ’’ فیول ایڈجسٹمنٹ‘‘ رکھا گیا تھا جس نے مرد و خواتین کو خون کے آنسو رلا دیئے تھے۔ پاکستان کے عوام پر شاہد قدرت کو رحم آ گیا اور تادم تحریر ابھی تک حقیقی گرمی کی شروعات نہیں ہو سکی۔ گو کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ موسم ٹھنڈا رکھنے والی بارشوں سے فصلوں کے ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے لیکن عوام اس پر بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ بجلی کے بلوں سے فی الوقت تو جان چھوٹی ہوئی ہے اور اگر فصلیں اچھی بھی ہوتیں تو عوام کو اس کا کیا فائدہ ہونا تھا کہ تمام گندم وغیرہ تو کرپٹ حکمرانوں اور مافیاز نے غائب کر کے یا سمگل کر دینی تھیں اور باقی ذخیرہ کر کے عوام کو مہنگے دام بیچنی تھی۔ گزشتہ ایک سال میں جہاں عوام پر معاشی تباہی کا بوجھ ڈالا گیا وہاں اس حکومت نے آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عدالتوں اور ججوں کو بھی گند میں کھینچتے ہوئے ان کے کردار کشی شروع کی ہوئی ہے، جو ریاست کے وجود سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس وقت بھی ملک میں آئین و عدالتی احکامات کو اپنے مذموم مقصد کے لئے جوتے کی نوک پر رکھ کر روندنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں قدرتی گیس سپلائی کرنے والی کمپنی جس کا حجم ناقابل بیان ہے، نے بھی گزشتہ ایک، دو سال سے عوام کی زندگیاں پہاڑ جیسی بنا رکھی ہیں۔ اپنے من پسند کارخانہ داروں کو گیس کی سپلائی فراہم کر دی جاتی ہے اور گھریلو صارفین کو مہینوں گیس کی فراہمی معطل رکھی جاتی ہے جبکہ ان کے اس مجرمانہ فعل ہر انہیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔ گرمیوں میں بھی گھریلو صارفین کو گیس نہیں مل رہی جبکہ لاہور جیسے شہر میں بھی فرنسوں اور بڑی ملوں و کارخانوں کو سرعام اور ڈھٹائی سے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ یہ آمر بھی قابل ذکر ہے کہ اوگرا نے گزشتہ دو ڈھائی سالوں سے گھریلو کنکشن پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور نئے کنکشن کی فراہم کی مد میں لوگوں کا فی کنکشن 31ہزار کے حساب سے اربوں روپیہ لپیٹ کر بیٹھا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت نے جس طرح بجلی کے نرخوں میں ہر دوسرے دن اضافے کا طریقہ اپنایا ہوا ہے بالکل اسی طرح گیس کے نرخ دو سو فیصد بڑھانے کے ساتھ میٹر کے کرائے میں 500روپیہ اضافی کر دیا جو سراسر ظالمانہ ہے۔ جس ملک میں عوام سال بھر گیس کو ترستے ہوں اس میں گیس کے نرخ بڑھانا اور میٹر کا کرایہ 500کر دینا کوئی ایسی حکومت ہی کر سکتی ہے جو غلامانہ ذہن کی ہو اور عوام کو تباہ و برباد کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہو۔ گزشتہ
جمعرات یعنی دو دن قبل بھاٹی گیٹ کے پاس سوئی گیس کے دفتر میں وہاں کے کچھ رہائشی مرد و خواتین ناجائز اور ظالمانہ اضافے پر اپنے بل لیکر جب سوئی گیس کے مذکورہ دفتر پہنچے تو دفتر کے اہلکاروں نے ان کے بلوں میں اضافے پر انہیں ٹکا سا جواب دیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ گیس کی مہینوں عدم فراہمی کے شکار خواتین و افراد نے اس پر سوئی گیس کے دفتر کو ڈنڈوں وغیرہ سے سخت توڑ پھوڑ کرنا شروع کر دی اور حکومت اور سوئی گیس کے محکمے کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ میڈیا نے عوام کا اپنے حقوق کے دفاع میں اس توڑ پھوڑ کو دکھانے سے گریز کیا لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں خبر کو بزور طاقت روکنا ممکن نہیں رہا۔ بہت عرصے سے لکھتا چلا ا رہا ہوں کہ پاکستان کے عوام کو معاشی تباہ حالی تک پہنچانے والوں کو اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب عوام حکومتوں کی زیادتیوں کا بدلہ لینے کے لئے اس گلے سڑے۔بد بودار اور زنگ آلودہ نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ جب عوام بیروزگاری اور شدید مہنگائی کا بدترین شکار ہوں گے تو پھر مراعات یافتہ حکمران بھی عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنیں گے اور یہ ہی وہ مقام ہے جہاں سے انقلاب کا آغاز ہوا کرتا ہے اور پھر اگر فرانس جیسا انقلاب ہو تو پھر جس کے ہاتھ نرم ہوں وہ کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان ماضی کے روس، فرانس اور ایرانی انقلاب سے پہلے کے بدترین حالات سے بھی ابتر حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ عوامی شعور اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے تناظر میں عوام کو شعور و آگاہی دینے کا جو عمل عمران خان نے گزشتہ ایک سال میں پاکستان کے عوام کو دیا ہے اس سے یہ امید تو پیدا ہو چکی کہ اب ملکی اقتدار پر قابض مافیاز اور بیرونی ایجنڈوں کی تکمیل کے دن گنے جا چکے ہیں۔ موجودہ ملکی حالات میں ملک لوٹنے والے مفاد پرستوں کو اگر کوئی نشان عبرت بنا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف عوام ہی ہیں جن کو آئین کے مطابق انتخابات نہ کروا کر ظالم حکمرانوں نے نہ صرف ان کے حق رائے دہی سے محروم کیا ہے بلکہ عوام کے دلوں میں غصہ و نفرت کا ایسا لاوا بھر دیا ہے جو جب بھی پھٹا ان عوام دشمن مافیاز کو تباہ و برباد کرتے ہوئے بھسم کر دے گا۔ دکھائی تو یوں دے دیا ہے کہ عوام کو اس حالت میں پہنچانے والوں کا ’’ یوم حشر‘‘ منانے والا وقت بہت ہی قریب آن پہنچا ہے۔۔ اقبالؒ کے مطابق۔۔ اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو۔۔ کاخ و امراء کے درو دیوار ہلا دو۔۔۔ عوام کو آج ہی سوچنا ہو گا کہ لمحہ لمحہ قیمتی ہے۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button