تازہ ترینخبریںپاکستان

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس، عدالت تمام ریکارڈ طلب کر لیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء پر سماعت کرتے ہوئے پاکستان بار کی فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور 8 تارخ کو تمام ریکارڈ طلب کر لیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس آنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جب تک ریفرنس سماعت کے لیے مقرر نہ ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ اس بارے میں فیصلہ دے چکا، سیاست نے عدالتی کارروائی کو گندا کر دیا ہے، سپریم کورٹ کے ججز کا جاری کیا گیا حکم سب پر لازم ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

سماعت شروع ہوتے ہی درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل امتیاز صدیقی روسٹرم پر آ گئے۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو روسٹرم پر بلالیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ کچھ فریقین کے وکلاء ویڈیولنک پر پیش ہوں گے، مسلم لیگ ن نے بیرسٹرصلاح الدین، پیپلز پارٹی نے فاروق نائیک کو وکیل مقرر کیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی آخری سماعت نہیں، سب کو سنیں گے، ہمارا گزشتہ سماعت کا حکمِ امتناع برقرار ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی سمیت دیگر اہم نکات سامنے آئے، یہ ایک منفرد کیس ہے، سپریم کورٹ کے رولز کے بارے میں قانون واضح ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام فریقین کے وکلاء تحریری دلائل جمع کرائیں، اٹارنی جنرل صاحب! پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا منفرد قانون ہے، قانون سازی سے متعلق پارلیمنٹ کی کارروائی کے منٹس پیش کیے جائیں، ریاست کے تیسرے ستون یعنی عدلیہ کو اس قانون پر تحفظات ہیں۔

طارق رحیم نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل قانون کا حصہ بن چکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ حکم نامہ عبوری نوعیت کا تھا، جمہوریت آئین کا اہم جزو ہے، آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم جزو ہیں، دیکھنا ہے کہ کیا عدلیہ کا جزو تبدیل ہو سکتا ہے؟ عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے۔

سپریم کورٹ نے عدالتی اصلاحات پر پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

جسٹس مظاہر کو بینچ سے الگ کرنے کا مطالبہ

پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر علی نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کا مطالبہ کر دیا جبکہ چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی پاکستان بار کونسل نے سینئر ججز کو بینچ میں شامل کرنے کی استدعا کر دی۔

پاکستان بار کونسل نے کہا کہ اس بینچ میں شامل ایک جج کے خلاف 6 سے زائد ریفرنس دائر ہو چکے ہیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بینچ سے الگ کیا جائے۔

پاکستان بار کی استدعا مسترد

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان بار کی فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس آنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جب تک ریفرنس سماعت کے لیے مقرر نہ ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ اس بارے میں فیصلہ دے چکا، سیاست نے عدالتی کارروائی کو گندا کر دیا ہے، سپریم کورٹ کے ججز کا جاری کیا گیا حکم سب پر لازم ہے۔

اٹارنی جنرل وزیرِ اعظم سے مشاورت کیلئے روانہ

سماعت شروع ہونے سے قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف سے مشاورت کے لیے اٹارنی جنرل سپریم کورٹ سے وزیرِ اعظم آفس روانہ ہوئے تھے۔

لارجر بینچ نے مجوزہ قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 13 اپریل کو مجوزہ قانون پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سمیت اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کو نوٹس جاری کیا ہے۔

درخواست گزاروں کے وکلاء آج عدالتی اصلاحات قانون پر دلائل دیں گے۔

سپریم کورٹ نے 13 اپریل کو عدالتی اصلاحات بل پر عمل درآمد روک دیا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button