Column

یکم مئی اور مگر مچھ کے آنسو

تحریر : روہیل اکبر
یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں اس دن بڑے بڑے سرمایہ دار، بیوروکریٹ اور سیاستدان بڑے بڑے ہوٹلوں کے ٹھنڈے ہالز میں غریبوں یعنی مزدوروں کی غربت کا مذاق اُڑائیں گے، انکے حق میں بڑی لمبی چوڑی تقریریں کرینگے، مزدور کی غربت پر مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے اور پھر اپنے غریب مزدور ڈرائیور کو حکم دیتے ہوئے نکل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا ہونے والے اس خوبصورت پاکستان میں دنیا کی ہر خوبصورتی اور وسائل موجود ہیں یہاں معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں سونے جیسی زمین ہے چاندی جیسے ریگستان ہیں چاروں موسم ہیں سمندر ہیں دریا ہیں ندی نالے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم مزدور پیدا کرنے میں دنیا کے9ویں بڑے ملک میں شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے مزدور دنیا بھر میں گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں وہاں انہیں دن کو سکون ملتا ہے نہ وہ رات کو چین کی نیند سوتے ہیں اور انکے خون پسینے سے حاصل ہونے والی کمائی پاکستان کی معیشت کی ترقی میں دوسرے نمبر پر ہے، اگر یہ لوگ پاکستان پیسے نہ بھیجیں تو ہماری معیشت کا دھڑن تختہ ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری پی ڈی ایم حکومت نے سب سے پہلے انکے ووٹ کا حق ختم کر دیا، ہمارے ملک میں کام کرنے والے مزدوروں اور ملک سے باہر جاکر کام کرنے والے مزدوروں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق آجاتا ہے اور باہر جاکر اپنے ملک کے وسائل کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے، ساتھ میں لوٹنے والوں کا بھی علم ہو جاتا ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں صرف غریب ہی پیدا ہورہے ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں پیسہ صرف لوٹ مار اور فائلوں کو پہیے لگانے والوں کی قسمت میں ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ یہاں کا پڑھا لکھا بچہ بھی نوکری اور کاروبار کے ذرائع نہ ہونے کے باعث مزدور ہی بن رہا ہے اور جنکی سفارش ہوتی ہے انہیں اعلی عہدوں پر بھرتی بھی کرلیا جاتا ہے ترقیاں بھی ملتی ہیں اور لوٹ مار کے ساتھی بھی بن جاتے ہیں۔ آپ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کا پورا دور اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طرح انہوں نے میرٹ کی گردان کرتے کرتے اپنے چاہنے والوں کو محکمہ پولیس، مال، ایجوکیشن سمیت تقریباً 36 سے زائد محکموں میں اعلی عہدوں سمیت چھوٹے عہدوں
پر بھی بھرتی کرایا، اہل، ایماندار اور قابل لوگوں کو جب میرٹ پر نوکریاں نہیں ملیں گی تو وہ بھی مزدور ہی بنیں گے۔ پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جہاں چند خاندانوں، وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو نکال کر ایک سائڈ پر رکھ دیں تو باقی سارا ملک مزدور ہی نظر آئے گا، ہمارے دیہات اور وہاں کے لوگوں کا رہن سہن دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا غربت کیا ہے، کئی کئی سالوں سے ایک جوڑا جوتی اور دو سوٹ کپڑوں کے ساتھ زندہ رہنے والے یہ بھی پاکستانی ہیں جنہیں کوئی سہولت نہیں جو گرمیاں درختوں کے نیچے اور سردیاں ٹھٹھرتے ہوئے گزارتے ہیں اور انکے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے دنیا بھر کی آسائشیں ایک کلک پر انجوائے کرتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو ہمارے سرکاری ملازمین جن کا گریڈ 16اور اس سے کم ہے وہ بھی مزدور ہی ہیں جنکی تنخواہ آنے سے پہلے ہی ختم ہوچکی ہوتی ہے اور پھر وہ پورا ماہ بچوں کو تسلیاں دیتے ہوئے گزارتے ہیں، ہماری پولیس میں کانسٹیبل سے تھانیدار تک جتنے ملازم ہیں وہ بھی مزدوروں کی طرح کام کرتے ہیں، موجیں اور عیاشیاں ہیں تو افسران کی جو سرکاری خرچ پر پوری زندگی گزار جاتے ہیں، مزدور رہنما دریاب یوسف اور فاروق آزاد سے مزدوروں کے عالمی دن کے حوالہ سے بات ہورہی تھی تو انکا کہنا تھا کہ ہمارے نظام حکومت نے ملک کی تقریبا85فیصد سے زائد آبادی کو مزدور بھی نہیں بننے دیا کیونکہ مزدور تو پھر کہیں نہ کہیں کام دھندہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے لیکن جو سفید پوش طبقہ ہے وہ تو مزدوری کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتا ہے اور جو انکو اس حال تک پہنچانے والے ہیں وہ آج کے دن ان کی بے بسی پر آنسو بہانا فرض سمجھیں گے خاص کر حکمرانوں کی طرف سے بڑی شعلہ بیانی کی جائیگی، مزدوروں کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے جائیںگے لیکن نتیجہ صفر نکلے گا کیونکہ یہ سب وہ باتیں ہیں جو اس بار نہیں بلکہ کئی بار سن چکے ہیں لیکن ہمارے ہاں مزدور کی قسمت نہیں بدلی، وہ آج بھی کسی اچھے ہسپتال میں اپنا علاج نہیں کرا سکتا، وہ تو بھلا ہو عمران خان کا جس نے ہر کسی کو بلا تفریق ہیلتھ کارڈ دیدیا جسے پی ڈی ایم حکومت نے ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن نہ ہوسکا، ہمارا مزدور اپنے بچے کو کسی اچھے سکول میں پڑھا نہیں سکتا، سرکاری سکول میں بھی اس غرض سے نہیں بھیجتا کہ کل کو پڑھ لکھ کر بھی نوکری نہیں ملنی اس لیے وقت ضائع کئے بغیر وہ اسے کسی نہ کسی کام پر لگا دیتا ہے، ہمارے ہاں چائلڈ لیبر کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا، بچے بچپن سے ہی نوکر بن جاتے ہیں اور پھر یہ نوکری خاندانوں تک چلتی ہے، دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہہ لیں کہ ہمارا نظام نہ مزدور پیدا کرتا ہے نہ غریب بلکہ غلام پیدا کر رہا ہے جو حکمرانوں کی غلامی سے لیکر سرمایہ داروں تک کی غلامی کرتا ہے، اگر ہم اس غلامی سے آزاد ہو جائیں تو پھر ہر چیز طریقے اور سلیقے سے ہو گی کوئی ملازم غیر قانونی طریقے سے کام نہیں کریگا۔ گزشتہ رات حکومت نے پرویز الٰہی کے گھر جو کیا وہ ایک غلام معاشرے میں ہی ہوسکتا ہے غنڈہ گردی اور لاقانونیت وہاں چلتی ہے جہاں اندھے اور بہرے لوگوں کی اکثریت ہو، مجھے شیخ رشید کا جملہ یاد آرہا ہے کہ پاکستان میں غریب کا دشمن غریب ہی ہے جو ایک دوسرے کو مارتا ہے برباد کرتا ہے اور پھر ایک دوسرے کی بربادی کا جشن مناتے ہیں جبکہ سرمایہ دار، جاگیر دار اور مفاد پرست کبھی آپس میں نہیں لڑتے حکومت کسی کی بھی ہو لیکن چینی پر اربوں روپے کا مفاد حاصل کرنے والے ایک ہوتے ہیں اور لائنوں میں لگ کر ایک دوسرے کو پائوں تلے روندنے والے، ایک ایک روپے کی خاطر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں، میں شکاگو کے ان شہیدوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جن کی جدو جہد اور قربانی سے آج ہم مزدوروں کو یاد تو کرتے ہیں خواہ جھوٹے منہ ہی سہی لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میں نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کے اس اقدام کو سراہتا ہوں کہ جنہوں نے پنجاب میں مزدور کو عزت دی اور انکی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button