Column

عافیہ کو چھڑانے والا قاسم کب پہنچے گا۔۔۔؟

جوسف علی

کراچی کی پورٹ قاسم کو کسی زمانے میں دیبل کی بندرگاہ کہا جاتا تھا۔ تب اس ساحلی پٹی کا حاکم راجہ داہر ہوا کرتا تھا جسے عربی جرنیل محمد بن قاسم نے92ہجری (711عیسوی) میں شکست دی تھی۔ محمد بن قاسم، حجاج بن یوسف کے سپہ سالار تھے، جنہوں نے سندھ پر حملے کا جواز ڈھونڈنے کے لئے یہ کہانی تخلیق کی تھی کہ ’’ دیبل کی بندرگاہ پر راجہ داہر کے قزاقوں نے ایک مسلم سمندری قافلے کو لوٹ کر مرد و خواتین کو یرغمال بنا لیا ہے‘‘۔ اس کہانی میں مزید یہ رنگ بھرا گیا کہ قافلے میں فاطمہ نامی ایک قیدی لڑکی بھی شامل تھی جس نے اپنی رہائی کے لئے حجاج بن یوسف کو پکارا تھا۔ اسی لئے محمد بن قاسم کو اس لڑکی کو چھڑانے کے لئے سندھ کی طرف روانہ کیا گیا تھا۔’’ دروغ بر گردن راوی! خاکسار کو یہ تجزیہ کرنا مقصود نہیں کہ سندھ پر حملے کی اصل وجہ کیا تھی؟ لیکن یہ ایک ’ کرشمہ‘ ہے کہ ہماری تاریخ ہمیں یہ پڑھاتی ہے کہ ہمارے قومی ہیرو وہ نہیں ہو سکتے جو ہمارا دفاع کریں گے بلکہ ہمارے قومی ہیرو وہ ہوں گے جو ہمیں تاراج کریں گے! شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنی کشتوں کے پشتے لگانے پر خوش ہوتے ہیں، ہم ان کو خراج پیش کرتے ہیں جو ہماری زمینیں چھین لیتے ہیں یا پھر ہم وہ قوم ہیں جس کے بیٹے لڑتے دھرتی ماں کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں تو ہم انہیں باغی قرار دیتے ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو یاد کریں، اگر فاطمہ بیٹی قدیم دیبل یعنی کراچی کی بیٹی تھی تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق بھی کراچی سے ہے، کیا وہ کراچی کی بیٹی نہیں ہیں جو گزشتہ 20سال سے امریکہ کی قید میں ہیں؟۔ ہمارا بھی ایک سپہ سالار تھا، وہ بھی راجہ داہر کی طرح لوکل تھا کیونکہ وہ بھی کراچی کا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی کراچی کی تھیں ( جو بیس سال ہوئے کراچی کی نہیں رہی ہیں) لیکن کیا ہوا کہ اسی سپہ سالار نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا۔ اب دنیا میں راجہ داہر ہے اور نہ ہی محمد بن قاسم ہے جبکہ ہم بحیثیت قوم گونگے اور بہرے ہو گئے ہیں۔ کچھ واقعات اور سانحات دل پر نقش ہو جاتے ہیں، انسان چاہے بھی تو ان کو بھلا سکتا ہے اور نہ ہی دل اور روح سے ان کا نقش مٹا سکتا ہے۔ ان میں سے اگر کسی واقعہ کا تعلق ایسا ہو کہ اس کو یاد کر کے انسان درد کی کسی خاص کیفیت کو محسوس کرے تو وہ کیفیت بھی ایسی ہوتی ہے کہ اسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے مگر لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ جان کیٹس کی ایک نظم کے ایک مصرعہ کا مفہوم ہے کہ ’’ ہماری زندگی کے سب سے شیریں گیت وہ ہیں جو ہم اپنے غم کی حالت میں گاتے ہیں‘‘۔ اس قسم کے غم کے عالم میں بھی سب سے زیادہ سوہان روح وہ غم ہوتے ہیں جس طرح کا غم آج ہم کچھ درد مندوں کو عافیہ صدیقی کی صورت میں محسوس ہوتا ہے۔ ہمارا وہ کونسا سیاسی لیڈر ہے جس نے عافیہ صدیقی کے خاندان سے اس کی رہائی کا وعدہ نہ کیا ہو؟ لیکن جب وہ اقتدار میں آئے تو سب کے سب ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے کئے گئے وعدوں کو بھول گئے۔ سب سے طمطراق والے وعدے عمران خان نے کئے تھے مگر جب وہ وزیراعظم بنے اور امریکہ کے دورے پر صدر ٹرمپ سے ملے تو بھیگی بلی بن گئے، شائد وہ منظر سب کو یاد ہو جب ایک پاکستانی صحافی کو وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے بارے میں سوال پوچھنے سے منع کر دیا تھا۔ ایک اردو اخبار کی خاتون کالم نگار نی عمران خان کی خفگی کی پروا نہ کرتے ہوئے امریکی صدر سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات زبردستی کر دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے پوچھا کہ یہ خاتون کیا کہتی ہیں؟ معلوم ہے اس پر خان صاحب کا کیا ردعمل تھا؟ خان صاحب نے اپنا منہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا۔ اب ہم وزیراعظم شہباز شریف سے ڈاکٹر موصوفہ کی رہائی کی کوشش کرنے کی درخواست تو کر سکتے ہیں مگر وہ ’’ محمد بن قاسم‘‘ کی سی غیرت و حمیت کا مظاہرہ بھی کریں، یہ ان کی حکمت عملی پر منحصر ہے۔ بندہ ناچیز تو پوری قوم کی طرف سے وزیراعظم اور آرمی چیف کو درخواست ہی کر سکتا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ کو رہا کرائیں۔ اگر آج واقعی کوئی قاسم زندہ ہوتا اور ہم بھی زندہ قوم ہوتے تو عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے ہم ایسے ہی آواز اٹھاتے جیسے ابوغریب جیل میں تصاویر کو دیکھ کر عراقی قیدیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف امریکی فوجی جو ڈاربی کا ضمیر جاگ اٹھا تھا اور وہ راتوں کو سو نہیں پا رہا تھا اور وہ بغداد کی سڑکوں پر سگریٹ پھونکتا رہا تھا، یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہا تھا کہ اسے اب کیا کرنا چاہئے اور جس نے بلآخر وہ تصاویر امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ تک پہنچا دی تھیں اور جس کے بعد نہ صرف عراقی قیدیوں پر ظلم و ستم ختم ہوئے، قیدی رہا ہوئے اور قیدیوں پر ظلم و ستم پر مبنی اور نازیبا تصاویر کی وجہ سے امریکی جیلروں کا کورٹ مارشل بھی ہوا بلکہ جیل کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے پاکستان کے حکمرانوں، میڈیا اور سول سوسائٹی نے حد درجہ بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ اس کے برعکس جس طرح کیوبا میں موجود گوانتاناموبے جیل کے خلاف امریکہ ہی میں بیک فائر ہوتا رہا ہے اور خود امریکی عوام قیدیوں کے حق میں آواز اٹھاتی رہی ہے، پہلے سابق امریکی صدر بش اور براک اوباما اور اب جوبائیڈن پر اس جیل کو بند کرنے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے اور وہاں سے20سال بعد کچھ پاکستانی قیدی بھی رہا ہو چکے ہیں جنہیں9؍11کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے حوالے کیا تھا، اگر اس معاملے میں کچھ لوگوں نے ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ آواز اٹھائی ہے تو وہ بھی غیر مسلم ہیں، جن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے ایک امریکی وکیل بھی کام کر رہا ہے، جس کا نام کلائیو سٹیفرڈ سمتھ ہے جس نے چند ماہ قبل ڈاکٹر عافیہ سے ڈیڑھ گھنٹے تک ملاقات کی۔ اس وکیل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’ اس پر کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ ایک کمزور سی لڑکی نے امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر ان پر گولی چلانے کی کوشش کی ہو گی‘‘۔ دنیا جانتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ ہر قسم کے جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ پہلے افغانستان کی بگرام جیل میں اس پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا جس وجہ سے اس کے اوپر والے سارے دانت ٹوٹ گئے تھے، پھر اسے بگرام جیل سے امریکہ بھیجا گیا جہاں ایک عدالت نے اسے کوئی جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود چھیاسی سال قید کی سزا سنا دی تھی۔ سمتھ اپنی تحریر میں کہتے ہیں کہ ’’ جیل میں وہ آج بھی ہر روز ٹارچر کا سامنا کر رہی ہے، آج بھی اسے روزانہ گندی گالیاں دی جاتی ہیں‘‘۔ عدالتی فیصلے کے مطابق عافیہ صدیقی2094ء تک قید میں رہے گی۔ تب تک وہ گالیاں ہمیشہ سنتی رہے گی۔ محترم المقام سمتھ کہتے ہیں کہ ’’ میری نظریں پاکستان پر ہیں کہ وہ اپنی اکلوتی معصوم قیدی شہری کی کس طرح مدد کرتا ہے، میں کسی معاوضے کے بغیر ہر قسم کی مدد کے لئے تیار ہوں اور میں عنقریب پاکستان بھی جا رہا ہوں۔ ہاں، ایک غیر مسلم محمد بن قاسم بن کر کراچی آنے کے لئے تیار ہے مگر وہ محمد بن قاسم کہاں ہے جو ہمارے مطالعہ پاکستان میں موجود ہے جس کو قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی آہ و بکا سنائی نہیں دے رہی ہے مگر درد کی وہی آوازیں ایک ’’ کافر‘‘ کو سنائی دے رہی ہیں؟ شاید پاکستان میں جگہ جگہ ہمارے ’’ قاسم‘‘ تو زندہ ہیں اور وہ یہ آوازیں بھی سن رہے ہیں مگر ان کے ضمیر مر چکے ہیں، شاید واقعی وہ بھی مر چکے مگر وہ صرف مطالعہ پاکستان کے کاغذوں میں زندہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button