Editorial

روس سے تیل کی درآمد، قوم کو ریلیف ضرور ملنا چاہئے

اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان میں اس وقت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہیں۔ اس پر طرہ کہ پچھلے مہینوں ڈالرز کی قدر میں ہوش رُبا اضافے، اونچی اُڑانوں اور پاکستانی روپے کی تاریخی بے وقعتی نے ملک و قوم کے لیے حالات کو خاصا پیچیدہ اور مشکل بنا ڈالا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں یہ بڑا اضافہ ملک میں مہنگے ایندھن کا ایک سبب بھی ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات کا زیادہ تر تیل بیرون ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ ان کی ادائیگی بیرونی کرنسی خاص طور پر امریکی ڈالر میں ہوتی ہے، جو پاکستانی روپے کی بدترین بے توقیری کے باعث حکومت پر خاصی گراں گزرتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے موجودہ حکومت کوشاں ہے اور روس سے تیل درآمد کرنے کے لیے اقدامات کرتی چلی آرہی ہے، جو دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کو سستا پڑے گا۔ اس ضمن میں روسی ذمے داران بھی پاکستان کا دورہ کر چکے اور حکومتی ٹیم سے مذاکرات کرکے تمام معاملات طے کرچکے ہیں۔ روسی تیل کی درآمد سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مناسب سطح پر لانے میں مدد مل سکے گی۔ اگلے ماہ سے روس سے تیل کی درآمد کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں، جس پر روس پاکستان کو بڑا ڈسکائونٹ دے رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر ادائیگی امریکی کرنسی کے بجائے چینی کرنسی یوآن میں کیے جانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ یہ امر پاکستان کے لیے کافی اطمینان بخش قرار پاتا ہے کہ وطن عزیز میں ڈالرز کی شدید قلت ہے اور یہی سبب اس کی قیمت میں تاریخی اضافے کی وجہ بھی ہے۔روس سے تیل درآمد سے متعلق اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان کو روس 18ڈالر فی بیرل تک ڈسکانٹ پر تیل فراہم کررہا ہے جب کہ ادائیگیاں چینی کرنسی یوآن میں کی جائیں گی۔ پاکستان نے ٹیسٹ کیس کے طور پر روس سے کروڈ آئل کی امپورٹ کے لیے پہلا آرڈر دے دیا، روس سے ایک لاکھ ٹن کروڈ آئل کی پہلی شپمنٹ مئی کے آخری یا جون کے پہلے ہفتے میں پاکستان پہنچے گی، اس شپمنٹ پر پاکستان کو 18ڈالر فی بیرل تک ڈسکائونٹ حاصل ہوگا۔ واضح رہے کہ پاکستان پٹرولیم مصنوعات کی خریداری کے لیے پلیٹس کی جاری کردہ قیمتوں کو فالو کرتا ہے اور پلیٹس کے ریٹس کی نسبت پاکستان کو روسی تیل کی خریداری پر 16سے 18ڈالر فی بیرل تک ڈسکائونٹ حاصل ہوگا۔ اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان روس کو چینی یو آن میں ادائیگیاں کرے گا اور ایل سیز بینک آف چائنا کھولے گا، چینی کرنسی کے استعمال کا فیصلہ روس پر امریکی پابندیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے، دوسری وجہ ڈالر کی قلت بھی ہے۔ معاشی ماہرین ڈالر کیعلاوہ کسی بھی کرنسی میں روسی تیل کی ادائیگیوں کو ایک بہترین موقع قرار دے رہے ہیں۔ یہ اطلاع خوش کُن ہونے کے ساتھ باعث راحت قرار پاتی ہیں، کیونکہ ملک و قوم پچھلے کافی عرصے سے انتہائی مہنگا ایندھن استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ روس سے تیل درآمد کرنے سے قیمتوں میں واضح کمی ممکن ہوسکے گی جو ملک کے غریب طبقے کے لیے آسانی کا باعث بنے گی۔ روس سے اتنے بڑے پیمانے پر تیل اگلے مہینے پاکستان پہنچ جائے گا، جو خوش کُن امر ہے، اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ تیل درآمد کرنے سے حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی لانے میں مدد ملے گی اور عوام کو سستا ایندھن دستیاب ہوسکے گا۔ اس حوالے سے عوام کو ریلیف ضرور ملنا چاہیے، یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ دوسری جانب چینی کرنسی میں ادائیگی سے پاکستان کو خاصی سہولت مل سکے گی۔ اسے ایک بڑا ریلیف قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کی ضرورت بھی خاصی شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ کاش سابق حکمراں بھی اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے، تاہم انہوں نے روس سے تیل درآمد کرنے میں اُس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے اور گرانی میں ہوش رُبا اضافے کی ایک وجہ مہنگا ایندھن ہی ہے، کیونکہ مہنگائی میں اضافے کو ہمیشہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑھوتری سے جوڑا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ ایندھن مہنگا ہونے سے گرانی بڑھتی ہے۔ اسی طرح جب پٹرولیم مصنوعات سستی ہوں گی تو لازمی ہے کہ مہنگائی کے زور میں بھی کمی آئے گی اور اشیاء ضروریہ کے دام واضح طور پر گھٹتے دکھائی دیں گے۔ دوسری جانب ہم ان سطور کے ذریعے گزارش کریں گے کہ حکومت نے غریب عوام کے لیے سستے پٹرول اسکیم کا جو اعلان کیا تھا، اس جانب بھی تیزی سے پیش قدمی کی جائے، سستا پٹرول اسکیم ایک خالصتاً عوامی ریلیف کا منصوبہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں شفافیت اور ایمان داری، دیانت داری کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، صرف مستحق لوگ ہی اس سے مستفید ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس اسکیم سے متمول لوگ بھی جھولیاں بھر بھر کر استفادہ کر رہے ہوں اور غریب لوگ محروم رہ جائیں۔ حکومت بلاتاخیر کیے سستا پٹرول سکیم کو جلد از جلد حتمی شکل دے کر رواج دے، تاکہ خلق خدا کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہوسکے۔

عید تعطیلات کے بعد سرکاری دفاتر میں حاضری کم

سرکاری دفاتر عوام کی سہولت کے لیے ہوتے ہیں کہ لوگ وہاں اپنے مسائل کے حل کے لیے جاتے ہیں، پہلے ہی عالم یہ ہے کہ سرکاری دفاتر جانے والے لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تب جاکر اُن کا کام ہو پاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے کام کے لیے اُنہیں کئی کئی چکر لگانے پڑتے ہیں۔ ایک طرف یہ حال ہے تو دوسری جانب عیدین کی تعطیلات کے بعد اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ سرکاری دفاتر میں سناٹے چھائے رہتے ہیں۔ اکثر افسران اور عملے کے لوگ عید کے گزرنے کے بعد کئی کئی روز تک غیر حاضر رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ہی اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوتے ہیں۔ ایسا ہر سال ہوتا ہے۔ اس بار بھی حالات مختلف نہیں۔ عیدالفطر گزر چکی ہے، سائلین سرکاری دفاتر کے چکر لگارہے ہیں، لیکن وہاں اکثر عملہ اب تک عید چھٹیوں کو گزارنے میں مصروف ہے۔ اس لیے لوگوں کو مایوس اپنے گھروں کو لوٹنا پڑرہا ہے۔ ملک بھر کے سرکاری دفاتر کے ملازمین ویسے ہی اپنا کام صحیح طور پر انجام نہ دینے کے باعث بدنام ہیں، بدعنوانی کے سنگین الزامات اُن پر عائد کیے جاتے رہتے ہیں، اس پر طرہ کہ اگر یہ چھٹیاں کرنے پر آجائیں تو لمبی لمبی تعطیلات مناتے ہیں۔ اسی حوالے سے جہان پاکستان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق عید چھٹیاں ختم ہونے کے بعد دوبارہ سے زندگی معمول پر آگئی ہے جب کہ تعلیمی اداروں سمیت سرکاری دفاتر بھی کھل گئے ہیں، سرکاری دفاتر کھل تو گئے لیکن حاضری کم ہونے کے باعث عوام کام نہ ہونے کا شکوہ کرتے دکھائی دیے۔ سرکاری دفاتر میں 30 فیصد سے زائد ملازمین غائب بتائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب چھٹیاں ختم ہونے کے بعد تمام اسکول بھی کھل گئے ہیں۔ یہ امر کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح کے رویوں کے باعث ہمارے اکثر سرکاری اداروں کی صورت حال خراب ہے، وہاں بدعنوانی راج کرتی ہے اور وہ تباہی کے دہانے پر پہنچے ہوئے ہیں۔ اگر ان اداروں کے افسران اور عملہ ذمے داری سے اپنے فرائض انجام دیں، عوامی شکایات کا فوری ازالہ کریں، بدعنوانی کا عمل دخل نہ ہو تو یہ ادارے پھر سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ عید پر چھٹیاں منانا اور انہیں اپنے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے ساتھ گزارنا ہر کسی کا حق ہے، اس میں کوئی بُرائی بھی نہیں، لیکن سرکاری اداروں کے افسران اور عملے کی جانب سے ان مواقع پر طویل چھٹیاں کرنا اور اس دوران سرکاری دفاتر میں کم حاضری کی شکایات عام ہونا یقیناً تشویش ناک امر اور لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے ایسے ملازمین کی دل آزاری ہوتی ہے جو باقاعدگی کے ساتھ دفاتر حاضر ہوتے اور اپنا کام جانفشانی اور پوری لگن سے سرانجام دیتے ہیں۔ چھٹیوں پر مستقل آمادہ ملازمین کے خلاف سرکاری سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ اپنی ایسی ناپسندیدہ روش ترک کرکے باقاعدگی سے آفس آئیں اور ایمان داری و دیانت داری کے ساتھ فرائض انجام دے سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button