ColumnRoshan Lal

نوے دن، آئین اور عدل .. روشن لعل

روشن لعل

ہمارے ملک کا آئین ، قطعاً آسمانی صحیفہ نہیں ہے کہ اس میں کوئی ترمیم نہ کی جاسکے، مگر پھر بھی اس میں درج ضابطے مقدس تصور کیے جاتے ہیں۔ آئین میں ترمیم کی گنجائش تو موجود ہے مگر کوئی بھی ترمیم آئین کی کتاب میں درج طریقہ کار کو نظر انداز کر کے نہیں کی جاسکتی۔ آئین میں ترمیم کی گنجائش رکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ ا سے بنانے والوں کو یہ مکمل ادراک تھا کہ تمام تر نیک نیتی کے باوجود ان کی تخلیق اس حد تک مطلق نہیں ہو سکتی کہ اس کی ہر شق آنے والے ہر دور میں کارآمد ثابت ہو سکے۔ اس کے علاوہ آئین میں ترمیم کی گنجائش سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ آئین میں پہلے سے موجود ہے اس کے متعلق بھی ابہام پیدا ہو سکتا ہے۔ آئین کی کسی شق کے متعلق ابہام سامنے آنے کی صورت میں اگر پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے ترمیم کر کے ابہام دور نہ کر سکتی ہو تو پھر آئین کے مطابق عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ متعلقہ شقوں کی اس طرح تشریح کرے کہ جس سے ابہام دور ہو جائے۔
ہمارے آئین کے آرٹیکل 6میں یہ درج ہے کہ آئین کو منسوخ، مسترد یا معطل کر نا اور ایسا کرنے والے کا ساتھ دینے جیسا عمل کیونکہ بد ترین غداری ہے لہذا اس عمل کے مرتکب لوگ بد ترین غداری کی سزا (موت) کے مستوجب ہوں گے۔ یہ بات عجیب لگتی ہے کہ آئین بنانے والوں نے آئین کی پاسداری نہ کرنے جیسے عمل کو تو بد ترین غداری تصور کیا لیکن عدلیہ کی طرف سے کسی مبہم آئینی شق کی ممکنہ غلط تشریح کے متعلق کچھ نہیں کہا ۔ وطن عزیز میں ایک سے زیادہ مرتبہ نہ صرف آئین پاکستان کو کو منسوخ، مسترد یا معطل کیا گیا بلکہ عدلیہ کی طرف سے آئین کی ایسی تشریحات بھی کی گئیں جنہیں بعد ازاں تاریخ نے عدل کے منافی، جانبداری پر مبنی اور صریحاً غلط فیصلے قرار دیا۔ اگرچہ آئین کو منسوخ، مسترد یا معطل کرنے جیسے عمل کو بدترین غداری قرار دیا گیا ہے مگر اس جرم کا ارتکاب کرنے والا ہر بندہ سزا سے محفوظ رہا۔ اس حوالے سے آئین کا وقار بحال کرنے کے لیے اگر کسی نے کوئی کوشش کی تو وہ پشاور ہائیکورٹ کے مرحوم چیف جسٹس وقار سیٹھ تھے جنہوں نے اپنے اقلیتی فیصلے میں پرویز مشرف کو آئین توڑنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا مستوجب قرار دیا۔ گو کہ مرحوم وقار سیٹھ کے فیصلے کے متعلق ا ن کی اپنی قانونی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر ہرزہ سرائیاں کیں مگر کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے فیصلے کے بعد اب کوئی بھی مشرف جیسی طالع آزمائی کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ یہ دیکھا جا چکا ہے کہ ماضی قریب میں مشرف جیسے اختیار ات رکھنے والے لوگوں نے کئی مرتبہ وہ حالات پیدا ہونے کے باوجود طالع آزمائی کی کوشش نہیں کی جن حالات میں مشرف یہ کر گزرا تھا مگر عدلیہ کی طرف آئینی تشریحات کا وہ سلسلہ رک نہیں سکا جس قسم کی تشریحات یہاں ریٹائرڈ چیف جسٹس ارشاد حسن خان اور ان کے ہمنوا جج مشرف کو آئین لکھنے کی اجازت دے کر کرتے رہے۔ ان دنوں عدلیہ جن آئینی معاملات پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے ان کے متعلق ظاہر ہونے والے متفرق خیالات میں سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ مبہم معاملات کی تشریح کرنے کی کوشش اسی فہم کے تحت کی جارہی ہے جس قسم کے فہم کا استعمال سابق چیف جسٹس ( ر) ارشاد حسن خان کرتے رہے۔ سر دست ہماری عدلیہ ( ویسے یہاں عدلیہ کی بجائے کچھ ججوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے) کا استدلال ہے کہ پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کے بعد وہاں 60دن کے اندر انتخابات کا عدم انعقاد اور 90دن میں نئی منتخب حکومت کو اقتدار منتقل نہ ہونا آئینی تقاضوں کے منافی ہے۔ مبینہ آئینی تقاضوں کے مطابق جن 60دن کے اندر پنجاب میں انتخابات کا انعقاد ضروری تھا وہ 15مارچ کو پورے ہوئے اور90دن کے بعد جس تاریخ کو نئی منتخب حکومت کو اقتدار سونپا جانا چاہیے تھا وہ 4اپریل تھی۔ واضح رہے کہ آئین میں اسمبلیوں کے خاتمے کے بعد مخصوص مدت میں الیکشن کا انعقاد اور اقتدار کی منتقلی کا تو ذکر ہے مگر کہیں یہ نہیں لکھا کہ اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر کیا ہوگا۔ کچھ لوگ اسے آئین کا ابہام سمجھتے ہیں۔ اس ابہام کی وضاحت میں یہ مثال پیش کی جاتی ہے کہ اگر کوئی صوبائی وزیر اعلیٰ یا ملک کا وزیر اعظم آئینی مدت پوری ہونے سے قبل اسمبلی توڑے تو اس عمل کی توثیق کے لیے ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ صوبائی گورنر اور وزیر اعظم صدر پاکستان کو سمری بھیجے۔ اگر گورنر یا صدر سمری وصول ہونے کے بعد 48گھنٹے تک اس کی توثیق کے لیے اس پر دستخط نہ کریں تو پھر اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔جس طرح آئین میں یہ لکھا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی بھیجی ہوئی سمری پر مخصوص وقت میں گورنر یا صدر کی توثیق نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوگا اس طرح آئین میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اگر اسمبلی ٹوٹنے کے بعد 60دن میں الیکشن اور 90دن میں اقتدار منتقل نہ ہو تو کیا ہوگا۔ واضح رہے کہ آئین کا آرٹیکل 140Aلوکل باڈیز کے قیام سے متعلق ہے اور آئین کے آرٹیکل 222میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی طرح لوکل باڈیز کے الیکشن کا بھی ذکر ہے ۔ عجیب بات ہے کہ بلدیاتی ادارے موجود نہ ہونے اور ان کا الیکشن منعقد نہ ہونے پر ہماری عدلیہ نے سخت قسم کا ازخود نوٹس لے کر کبھی یہ نہیں کہا کہ ہر صورت میں آئین کا نفاذ ممکن بنایا جائے گا۔ ویسے جس طرح آئین اس معاملے میں چپ ہے ک خاص مدت میں اسمبلیوں کے الیکشن اور اقتدار منتقل نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوگا اسی طرح آئین بلدیاتی اداروں کا وجود اور انتخابات نہ ہونے کے معاملے پر بھی خاموش ہے۔ ہماری عدلیہ جو ملک کے اکثر حصوں میں بلدیاتی اداروں کا وجود نہ ہونے پر چپ تھی اس نے مخصوص مدت میں پنجاب اسمبلی کا انتخاب اور اقتدار کی منتقلی نہ ہونے پر اپنی خاموشی اس طرح سے توڑی کہ اس معاملے پر ان لوگوں نے بھی بے دریغ بولنا شروع کر دیا جو ناپ تول کر بولنے کی شہرت رکھتے تھے۔ ہماری عدلیہ نے پنجاب میں خاص مدت کے اندر انتخابات نہ ہونے پر آئین کی دہائی دیتے ہوئے جو کچھ کہا اس کے تسلسل میں یہ باتیں سامنے آئیں کہ اس معاملے میں آئینی ابہام کی تشریح کو چند ججوں تک محدود رکھنے کی بجائے فل کورٹ بنچ کے سپرد کر دیا جائے تاکہ عدل کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ عدل کے تقاضوں کی باتوں کو پس پشت ڈال کر جو کچھ کیا گیا اس سے عام لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ جن خاص ججوں کے سپرد یہ معاملہ کیا گیا ہے ان کا مخصوص فیصلہ کیا ہوگا۔ اس طرح کی باتیں زبان زد عام ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں ہمارے منصف عدل کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے سے احتراز کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button