ColumnNasir Naqvi

ایک اور سخت فیصلہ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

حالات کدھر جا رہے ہیں کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے معاشی بحران، سیاسی جھگڑے اور آئینی فساد کا منطقی انجام کیا ہو گا، اس کی اصلیت یہی ہے کہ ان بحرانوں کے ذمہ داران خود کوئی حل نکالنے کے لیے منطق اور دلیل نہیں رکھتے، یقینا عام آدمی کا یہ مسئلہ نہیں کیونکہ بنیادی تعلیم کی کمی، انہیں اپنا ہی نہیں، اپنوں کا پیٹ پالنے کی فکر لاحق ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ وہ زندگی بچائیں یا ’’ قوم، ملک ،سلطنت‘‘ ۔۔ ان 75سال میں ظالم حکمرانوں نے پاکستانیوں کو قوم بننے ہی نہیں دیا پھر بھی یہ معجزہ ہے کہ ان کی حب الوطنی کوئی نہیں چھین سکا، ہر بُرے وقت میں یہ کسی بھی زندہ قوم سے کم نہیں بلکہ زلزلہ، سیلاب، جنگ اور دہشت گردی کے مقابلے میں دنیا بھر کے مقابلے میں دو ہاتھ آگے ہی نظر آتے ہیں ان کی اجتماعی جدوجہد اور کوششوں نے بڑے سے بڑے بحران کا مقابلہ کیا بلکہ اقوام عالم کی آنکھیں کھول دیں، سوچیں اگر اسے کوئی صالح اور بہادر قیادت مل جائے اور وہ انہیں قومی یکجہتی اور پاکستان کا سبق ازبر کرا دے تو پھر یہ اپنی صلاحیتوں، جرأتوں اور ہمتوں سے کیسی قوم بن سکتے ہیں۔ بس یہی وہ اندیشہ ہے کہ جس کی بناء پر اسے ہر دور میں مختلف حیلے، بہانوں سے اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا،، اس سازش کو سمجھیں اور پرکھیں تو اس میں پرائے نہیں، اپنے بھی مل جائیں گے اس باصلاحیت قوم کی زندہ مثال موجود بحرانی دور ہے جب ہر روز پاکستان اپنے معاشی بحران میں ’’ ڈیفالٹ‘‘ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بچنے کا واحد راستہ آئی۔ ایم۔ ایف بتایا گیا ، عمرانی حکومت بھی یہی جانتی تھی لیکن اس نے پہلے کڑی شرائط پر معاہدہ کیا اور پھر جب حکومت سنبھلتی دکھائی نہیں دی تو ’’ معاہدہ‘‘ توڑ کر آنے والوں کے لیے رکاوٹ کھڑی کر دی۔ آئی ایم ایف ایک عالمی ادارہ ہے یقینا وہ کچی گولیاں کھیلنے کے عادی نہیں، لہٰذا انہوں نے اس بداعتمادی کی فضاء کا بھرپور فائدہ اٹھایا، ’’ ڈومور‘‘ کا اپنا حاکمانہ نعرہ بلند کر کے حکومت سے امتحان در امتحان لیے اور نتائج ابھی تک نہیں نکلے، لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اتحادی حکومت نے اچھے بُرے سخت فیصلے کر کے ایک سال گزار لیا۔ اب دوست ممالک بھی حقیقی صورت حال سے آشنا ہو چکے، اس لیے میری ’’ جمع تفریق‘‘ کہتی ہے کہ حکومت ایک اور سخت فیصلہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے معافی مانگ لے، معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے کیونکہ بین الاقوامی معاہدے کسی شخصیت سے نہیں ’’ سٹیٹ‘‘ سے ہوتے ہیں اس لیے’’ عمرانی حکومت ‘‘ کی کرامات کی راہ میں پاکستان ہے۔ میرے خیال میں پاکستانی عوام جن مشکل حالات میں وقت گزار کر رہی ہے اگر با اعتماد طریقے سے اجتماعی مفاد میں اس سے قربانی مانگی جائے تو وہ قربانی دے دے گی لیکن حکومتی یقین دہانی تھی کہ وہ اس مرتبہ اشرافیہ سے قربانی لے گی، ہمت کرے ’’ قوم، ملک، سلطنت‘‘ کی بھلائی کے لیے شب خون مار ے، کرپشن مافیا، ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوں اور سیاستدانوں نے عوامی خواہشات ہی نہیں ، ان کا خون چوس کر خوب مال و زر اکٹھا کیا ہے، ا ن کے گرد گھیرا تنگ کریں، پہلے منصوبہ بندی کر کے نوٹس دیں پھر کارروائی کر کے قومی خزانہ بھریں۔ معاشی صورت حال صرف قرضوں سے کبھی بہتر نہیں ہو گی۔ سیاسی بحران ختم تو نہیں ہوا لیکن پارلیمنٹ سے ہوتا ہوا شاہراہ دستور سے سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ پھر اس کی دھینگا مشتی نے رنگ پیدا کیا اس نے آئین و قانون کی بالادستی کے لیے عملی اقدامات کرتے کرتے حالات بگاڑ دئیے۔ اب پارلیمنٹ پورے زور و شور سے ’’ عدلیہ‘‘ کے سامنے کھڑی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں سب خوبیاں اور خامیاں آشکار ہو چکی ہیں۔ پہلے بینچوں کے قیام پر اختلاف، پھر بینچوں میں بغاوت پھوٹ پڑی اور اب ’’ مدر اِن لاء و سن اِن لائ‘‘ کی مداخلت زبان زد عام ہے ایسے میں ٹوٹ پھوٹ سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ موجودہ جدید دور میں رہی سہی کسر آڈیو، ویڈیو نے پوری کر دی، تضاد بیانی کا کلیہ بھی عروج پر ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے کھلاڑی ’’ یوٹرن‘‘ کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں بلکہ اسے بہت بڑی خوبی جانتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ وقت و حالات کے مطابق اعلیٰ ترین قومی مفادات کے فیصلوں کی جرأت ہے یہ صلاحیت عمران خان مرشد کے مقابلے میں کسی دوسرے کو نصیب نہیں، کس نے کیا کیا؟ حالات اس نہج پر کیوں پہنچے کہ بات بنتے بنتے بگڑجاتی ہے۔ عمرانی اقتدار سے رخصتی تک کی کہانی ہی سابق سپہ سالار جنرل ( ر) باجوہ کے گرد گھومتی ہے بلکہ اس وقت سب سے پتلی گردن جنرل ( ر) باجوہ ہی کی محسوس ہورہی ہے وہ اپنی غلطی کا برملا اقرار بھی کر چکے لیکن جان بخشی ممکن نہیں، پہلے عمران خان مطالبہ کر رہے تھے کہ باجوہ کا احتساب ان کا اپنا ادارہ کرے ، اس نے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب جو داستان حامد میر نے سنائی، اس پر نسیم زہرہ کورٹ مارشل کی تمنائی ہیں۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ دو سینئر صحافیوں نے 25صحافیوں سے جنرل ( ر) باجوہ کی کمرہ بند ملاقات کے حوالے سے تمام صحافتی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ’’ آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کو ’’ اون دی ریکارڈ‘‘ لا کر ’’ میڈیا‘‘ میں ہلچل پیدا کر دی۔ ازلی دشمن بھارت نے اس صحافتی چھکے سے کھیل کر پاکستان اور اس کی آرمی کے چھکے چھڑانے کے اسباب پیدا کر لئے۔ انہیں پاکستانی افواج کے خلاف گفتگو کرنے کے لیے تین چار روز کا بھرپور مواد مل گیا، اس صورت حال میں محب وطن طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ حامد میر کی اس پھلجھڑی سے ملک و ملت کو کیا فائدہ ہوا، یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ کیا نسیم زہرہ نے اتفاقی طور پر یہ بات کی کہ کسی ’’ خاص سوچے سمجھے‘‘ منصوبے کے تحت بات کا بتنگڑ بنایا ہے یقینا حکومتی اداروں کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ان انکشافات نے دنیا کی ایک مضبوط فوج کو بدنام اور ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے ’’ حامد میر‘‘ کے بیان کا جائزہ لیا تو اس میں کچھ دال میں کالا لگا کیونکہ یہ گفتگو جن پچیس افراد کی موجودگی میں ہوئی اس میں یہ دونوں شامل تھے، لہٰذا سوچنا تو پڑے گا کہ دونوں ذمہ داروں نے ’’ آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کو زیر بحث لانا کیوں ضروری سمجھا جبکہ ’’ آف دی ریکارڈ‘‘ کسی قومی راز سے کم نہیں ہوتا، پھر یہ بے اصولی کیوں کی گئی؟۔ 25رکنی ملاقات کے دو گواہ اور منظر عام پر آ گئے۔ اللہ زندگی دے نصراللہ ملک کو جو 22صفحات پر مشتمل نوٹ لے کر منصور علی خاں کے پروگرام میں آ گئے۔ ان سے لاکھ اختلاف ہو ان کے دستاویزی ثبوت برسوں پرانے ہیں۔ ان سے مکرنا اور انہیں غلط قرار دینا مشکل ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حامد میر نے صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کی، صحافتی اقدار یہی ہیں کہ اگر کوئی عام شخص بھی اپنی گفتگو کو ’’ آف دی ریکارڈ‘‘ قرار دے تو اسے منظر عام پر نہ لانا ذمہ داری ہے جبکہ اس گفتگو کو تو ایک اہم ترین شخصیت ’’ آف دی ریکارڈ‘‘ اس لیے کہہ رہی تھی کہ اس سے غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں، نصر اللہ ملک نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس سات گھنٹے کی قومی بریفنگ میں بہت سی قومی معلومات فراہم کرنے کا مقصد محض ذمہ دار صحافیوں کو آگاہی دینا تھا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جنرل ( ر) باجوہ نی اس بات کی نشاندہی بھی کی تھی آپ لوگ میری باتوں سے غلط مطلب بھی اخذ کر سکتے ہیں لیکن میں صرف اپنے وسائل میں رہتے ہوئے مسائل کی بات کر رہا ہوں، میں سپاہ سالار ہوں ہمارا کام ہی ’’ جنگ‘‘ لڑنا ہے۔ لیکن میں جدید سہولیات سے آگاہ کر رہا ہوں، اگر آپ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو یقینا آپ 25صحافیوں میں سے باقی 21صحافیوں سے بھی ان کا نقطہ نظر جاننے کی خواہش رکھتے ہوں گے لیکن نصراللہ ملک کے موقف کو منصور علی خاں نے بھی درست قرار دیا۔ اب باقی 21افراد منظر عام پر آتے ہیں کہ نہیں، ان میں یقینا سب سے تجربہ کار اور سینئر ’’ مجیب الرحمان شامی‘‘ تھے انہیں جنرل ضیا الحق سے لے کر جنرل ( ر) باجوہ تک ایسے ’’ کمرہ بند‘‘ اجلاسوں کا خاصا تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کی وضاحت اگر وہ کر دیں تو دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہو سکتا ہے۔ یعنی صرف 25میں سے پانچ سے ہی کام چل سکتا ہے انہیں ’’ آف دی ریکارڈ‘‘ کی بھی نشاندہی کر دینی چاہیے کہ کیا یہ حامد میر اور نسیم زہرہ نے فائول کھیلا کہ جو کچھ کیا وہ ضروری تھا: میں تو ’’ حامد میر‘‘ کو کئی حوالوں سے جانتا ہوں، ان کے والد محترم وارث میر سے بھی میری خاصی ملاقاتیں تھیں، جب وہ جنرل ضیاء الحق کے زیر عتاب آئے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت کی سربراہی کا قرعہ ڈاکٹر مسکین علی حجازی کا نکلا تو میں اس کہانی اور واردات کا بھی گواہ ہوں، لیکن چالیس سالہ صحافت میں مجھے اس بات کا بھی ادراک ہے کہ کچھ صحافی ہر دور میں ’’ ڈیوٹی فل‘‘ ہوتے ہیں لہٰذا ان کی مجبوریاں کیا ہوتی ہیں، میری ’’ جمع تفریق‘‘ یہی چغلی کھا رہی ہے کہ یہ جان بوجھ کر حالات کے تسلسل میں کسی کے اشارے پر بات کا بتنگڑ بنایا گیا ہے ورنہ صحافیوں کے سینے میں تو اس قدر راز ہوتے ہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کہ اگر اس طرح اگلنے لگ جائیں تو دنیا کا نظام اُلٹ پلٹ ہو جائے، اس لیے موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بحرانوں کی موجودہ فضاء میں بہتری لانے کے لیے ایک اور سخت فیصلہ کر کے اس کہانی کے ’’ تانے بانے‘‘ بھی قوم کے سامنے کھول دے کیونکہ اس سے ’’ افواج پاکستان‘‘ کا مورال ہی اثر انداز ہو گا بلکہ بداعتمادی کا زہر بھی پھیل سکتا ہے جس کے بحرانی دور میں ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button