ColumnHabib Ullah Qamar

بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کا خوفناک منصوبہ .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم جینوسائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت ملک میں موجود کروڑوں مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاری کر رہا ہے۔ تنظیم کے بانی صدر ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن نے کہا ہے کہ آر ایس ایس اب اپنے بالادستی کے پر تشدد نظریے کو پورے بھارت میں سکولوں، تجارتی انجمنوں، کلچرل سوسائٹیز اور مذہبی گروپوں میں آگے بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آر ایس ایس بجرنگ دل کے کیمپ چلاتی ہے جہاں نوجوان ہندو لڑکوں کو ہندو توا کا نظریہ سکھایا جاتا ہے اور مسلمانوں سے نفرت اور خوف کی کھلے عام وکالت کی جاتی ہے۔ آر ایس ایس کے کیمپوں کو بیرون ملک ہندوستانیوں سے خاص طور پر انڈیا ڈویلپمنٹ اینڈ ریلیف فنڈ کے ذریعے بڑی مالی امداد بھی ملتی ہے۔ ڈاکٹر سٹینٹن نے متنبہ کیا کہ بی جے پی ماضی میں پر تشدد فسادات اور نسل کشی کو بھڑکانے میں کردار ادا کر چکی ہے، خاص طور پر2002ء میں گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران بدترین قتل عام کیا گیا۔ اس وقت بھی بھارتی حکومت کی سربراہی میں مسلمانوں کے وسیع پیمانے پر قتل عام کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کے مسلمانوں پر حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ کبھی گائے ذبیحہ، لو جہاد یا کوئی اور الزام لگا کر مسلمانوں کی بستیوں پر حملے کر کے بے گناہوں کا خون بہایا جاتا ہے، ان کی جائیدادیں اور املاک برباد کی جاتی ہیں تو کبھی بابری مسجد سمیت دوسری مساجد شہید کر کے فسادات کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔ ہندو انتہا پسند بھارت میں مسلمانوں کا وجود ہی سرے سے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تعلیم اور صحت کی طرح ہر میدان میں مسلمانوں کو سازش کے تحت پیچھے رکھا گیا ہے۔ پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تو خاص طور پر مسلم نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے اور ان پر جھوٹے الزامات لگا کر کئی کئی سال کے لیے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی اچھے عہدے پر پہنچ کر مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں۔ بھارت میں اترپردیش کی طرح کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں، ان کی نسلیں وہیں جوان ہو کر بڑھاپے میں پہنچ گئیں لیکن بھارت سرکار انہیں اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور بہت بڑی تعداد میں مسلمان ایسے ہیں جنہیں بنگالی اور پاکستانی کا طعنہ دے کر ملکی شناخت سے ابھی تک محروم رکھا گیا ہے۔ بھارت میں جب سے نریندر مودی کی حکومت آئی ہے ملک میں ہندو انتہاپسندی ، مسلم کش فسادات پروان چڑھائے جانے ، مساجد و مدارس اور عیسائیوں کے چرچوں پر حملوں کے علاوہ کسی چیز نے نمایاں ترقی نہیں کی۔ ہندو انتہاپسندوں کے بے لگام جتھے ہر جگہ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر حملے کر کے ان کی جان و مال سے کھیل رہے ہیں۔
گائے ذبیحہ کے نام پر ہجومی تشدد سے اب تک کتنے ہی مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ہندو انتہاپسندوں نے ایسے واٹس ایپ گروپ بنا رکھے ہیں جہاں اپنے اہلکاروں سے باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی رپورٹیں طلب کی جاتی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے، جھوٹی خبروں اور غلط معلومات کی بنیاد پر ہتھیاروں سے لیس بھگوا دہشت گردوں کو بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کو ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہری دوار شہر میں ہندو انتہاپسندوں کا ایک بڑا اجتماع ہوا جسے ’’دھرم سنسد” کا نام دیا گیا ۔ اس اجتماع میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کی باتیں کی گئیں۔ ہندو انتہاپسندوں کی ایک خاتون لیڈر نے تو مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ چند سو ہندو اگر اپنے مذہب کے سپاہی بن کر20کروڑ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں تو وہ فاتح بن کر ابھریں گے اور ایسا کرنے سے ہندو مت کی اصل شکل سناتن دھرم کو تحفظ حاصل ہو گا۔ مذکورہ خاتون لیڈر نے کہا کہ اگر چند ایک لاکھ مسلمانوں کا قتل کر دیا جائے تو باقی سب مسلمان بلا چوں چراں بھارت کو ایک ہندو راشٹر کے طور پر تسلیم کر لیں گے۔ ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے یہ ساری باتیں اعلانیہ طو ر پر کی گئیں اور اس اجتماع میں بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداران بھی شریک ہوئے جو مسلمانوں کے خلاف اب تک کی کارکردگی کی رپورٹیں پیش کرتے رہے ۔ دنیا بھر کے میڈیا نے ہندوئوں کے اس اجتماع میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے حوالے سے کی گئی تقاریر کی کوریج کی لیکن کسی ملک اور بین الاقوامی ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور بھارت سرکار پر کسی قسم کا دبائو نہیں بڑھایا گیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں سے باز رہے۔
بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل رام داس سمیت ریٹائرڈ جرنیلوں اور دفاعی ماہرین نے مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکیوں پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے انڈیا کی تباہی کی طرف سے قدم قرار دیا لیکن ان کی بھی سن ان سنی کر دی گئی۔ بی جے پی سرکار کی طرف سے ہندو انتہاپسندوں کی کھلے عام سرپرستی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انتہاپسندی نے اور زیادہ شدت اختیار کر لی ہے۔ اس کی خوفناک مثال حال ہی میں ہندوئوں کے مذہبی جلوسوں کو مساجد کے سامنے سے گزارنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کر نا ہے۔ یہ جلوس گزارے جانے کے موقع پر مسلمانوں کے گھروں اور مساجد پر خاص طور پر حملوں کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مساجد کے بے حرمتی کے ساتھ ساتھ کئی مسلمانوں کو بھی شہید و زخمی کیا جا چکا ہے۔ بھگوا دہشت گرد ان دنوں پورے ہندوستان میں دندناتے پھرتے ہیں اور جہاں دل چاہتا ہے کسی داڑھی اور پگڑی والے کو پکڑ کر وحشیانہ تشدد شروع کر دیا جاتا ہے۔ بھارت کی انتہا پسند حکومت مذموم پروپیگنڈا کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کو ملکی سطح پر ایک بوجھ قرار دیتی ہے اور منظم منصوبہ بندی کے تحت انھیں تعلیم، صحت اور معیشت کے میدان میں اس قدر نیچے گرانا چاہتی ہے کہ وہ برسراقتدار انتہا پسند طبقہ کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کے لیے مجبور ہو جائیں۔ ماضی میں جب کبھی مکہ مسجد، مالیگائوں، ممبئی کی لوکل ٹرینوں اور اکشردہم مندر میں دھماکوں کے واقعات پیش آئے، ان کا الزام ہمیشہ مسلمانوں پر لگایا گیا اور بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جاتا رہ امگر کسی ایک واقعہ میں بھی مسلمانوں کی ملوث ہونے کا ثبوت نہیں مل سکا۔ ان دنوں بھی ہندوستانی مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر کبھی پاکستان بھیجنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو کبھی ان کی نسل کشی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم جینوسائیڈ واچ کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کے خوفناک منصوبہ کے متعلق جو رپورٹ جاری کی گئی وہ مکمل طور پر درست ہے۔ تنظیم کے بانی صدر ڈاکٹر سٹینٹن کا یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ مودی کی زیر قیادت بی جے پی آر ایس ایس کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ حقیقت ہے کہ بی جے پی آئندہ الیکشن سے قبل پورے بھارت میں ایک مرتبہ پھر فسادات کی آگ بھڑکانا چاہتی ہے تاکہ ہندوئوں کے مذہبی جذبات بھڑکائے جائیں اور عام آدمی پارٹی جو مختلف ریاستوں میں تیزی سے آگے آرہی ہے، اسے سیاسی طور پر نقصانات سے دوچار کیا جائے۔ بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے بی جے پی جس طرح کا ماحول بنا رہی ہے اس پر بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ بھی خاموش نہ رہ سکے اور انہوںنے بھی نریندر مودی پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکمران مسلمانوں کو تمام شعبہ جات میں بیکار بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ ناروا سلوک بند نہ کیا گیا تو مسلمان اپنی نسل کشی کی کوششوں پر دفاع کی جنگ لڑ سکتے ہیں اور ملک میں خانہ جنگی کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ بھارتی حکومت ہندو انتہاپسندوں کو شہ دے کر پورے بھارت میں سخت تعصب ، نفرت اور شدت والا ماحول پیدا کر رہی ہے۔ ان حالات میں بھارتی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ باہم متحد ہو کر بی جے پی کی دہشت گردی کے خلاف بھرپور تحریک چلائیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان، انصاف پسند حلقے اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی انڈیا کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مضبوط آواز بلند کریں تاکہ اسے نہتے مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کی قتل و غارت گری سے روکا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button