ColumnImtiaz Aasi

حج انتظامات میں تبدیلی اور مشکلات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اختتام کو ہے۔ یکم شوال سے موسم حج کا آغاز ہوجائے گا۔ کرونا کے دوران حج و عمرہ پر پابندیوں کے بعد اب تک قریبا اسی ہزار زائرین عمرہ کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ عیدالفطر سے ایک روز پہلے بہت سے زائرین اپنے ملکوں کو لوٹ جاتے ہیں لیکن عمرہ زائرین کی ایک کثیر تعداد عید کے موقع پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود ہوتی ہے۔ عمرہ زائرین کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جات سکتا ہے عمر رسیدہ زائرین کو احرام کی حالت میں طواف کے لئے مسجد الحرام کی آخری چھت پر بھیجا جاتا رہا ہے۔ سعودی حکومت کے لئے ماہ رجب سے ذوالجہ کے مہینے بہت مصروفیت کے ہوتے ہیں۔ حج انتظامات کے لئے دوسرے ملکوں کے وفود رجب میں آنا شروع ہو جاتے ہیں جو اپنے حاجیوں کے لئے ٹرانسپورٹ اور رہائش کے انتظامات کرکے وطن لوٹ جاتے ہیں۔ جب سے عازمین حج کو پرائیویٹ گروپس میں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہو ا ہے عازمین حج کے لئے جہاں آسانیاں ہوئی ہیں ہماری وزارت حج پر کام کا بوجھ کم ہو گیا ہے۔ کئی عشرے پہلے تک پاکستان سے عازمین حج کو دو کیٹگریوں ریگولر اور سپانسر سکیم میں بھیجا جاتا تھا۔ سعودی حکومت برسوں سے اس بات کی خواہش مند تھی پاکستان سے آنے والے عازمین حج کو پرائیویٹ گروپس میں بھیجا جائے ۔ حکومت پاکستان نے 2004میں عازمین حج کو پرائیویٹ گروپس میں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا جو اب تک کامیابی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان نے امسال ملک میں زرمبادلہ کی کمی کے باعث عازمین حج کی کل تعداد کے نصف عازمین حج کو سپانسر سکیم کے تحت بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں نجی گروپس کو اس سکیم میں ملنے والا کوٹہ پورا کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ ماضی میں جو لوگ سپانسر سکیم میں جاتے تھے وہ حج واجبات کا زرمبادلہ کی صورت میں بینک ڈرافٹ پاکستان سے بنوا لیا کرتے تھے، امسال عازمین حج پر اس بات کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ زیادہ ہونے سے بیرون ملک بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے اپنی رقم بھیج رہے ہیں، جس عازمین حج کو بھی زرمبادلہ کا بینک ڈرافٹ منگوانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اہم بات یہ ہے سعودی عرب اور امارات میں کام کرنے والے ہم وطن بینکوں میں زیادہ رقوم رکھیں تو ان سے رقم کے ذرائع پوچھے جاتے ہیں، ڈر سے بیرون ملک کام کرنے وا لے وہاں کے بینکوں میں اپنی جمع شدہ پونجی رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ معلمین کا نظام ختم ہونے کے بعد حجاج کی دیکھ بھال کرنے والے موسسہ جات کا نظام نجی کمپنیوں کو دینے سے منی اور عرفات میں خیموں اور دیگر انتظامات میں مقابلے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔ دولت عثمانیہ کے عہد سے حجاج کی دیکھ بھال کرنے والے معلمین اب نجی کمپنیوں کے ملازم ہوگئے ہیں۔ معلمین کو موسم حج میں لاکھوں ریال کماتے تھے اس تبدیلی سے صرف ایک لاکھ ریال مشاہرہ ملے گا۔ پاکستانی حاجیوں کی دیکھ بھال کرنے والے موسسہ جنوب ایشیا کو پرائیویٹ کمپنی میں بدلنے کے بعد اس کا نیا نام البیت رکھا گیا ہے۔ نئے نظام کے تحت عازمین حج جس کمپنی سے چاہیں منی اور عرفات میں خیمے حاصل کر سکیں گے۔ البیت کمپنی کا ایک گروپ پاکستان کا دورہ کر چکا ہے جس سے پنجاب اور اسلام آباد کے بہت سے پرائیویٹ گروپ آرگنائزوں نے منی میں انتظامات کا معاہدہ کر لیا ہے جب کہ رفاعہ المنیٰ کمپنی کا ایک دوسرا گروپ عیدالفطر کے بعد وطن عزیز آکر پرائیویٹ گروپ آرگنائزروں سے بات چیت کرکے اپنی کمپنی کے لئے حجاج کے حصول کا معاہدہ کرے گا۔ سعودی حکومت کا حج انتظامات میں اس تبدیلی سے منی میں حج انتظامات کرنے والی کمپنیوں میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوا ہے جس سے منی کے اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مملکت کی طرف سے جب سے آن لائن سسٹم کا آغاز ہوا ہے پرائیویٹ گروپ آرگنائزر اپنے حجاج کے لئے رہائشی انتظامات پاکستان سے کر لیتے ہیں۔ ایک پرائیویٹ گروپ آرگنائزر کا کہنا تھا ہمیں پچاس عازمین حج کا کوٹہ الاٹ کیا گیا ہے جنہیں ڈالر سکیم کے تحت حج پر بھیجا جائے گا لیکن عازمین حج کی بڑی تعداد بیرون ملکوں سے زرمبادلہ کا ڈرافٹ منگوانے سے قاصر ہے۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران اس ناچیز نے مشاہدہ کیا ہے سرکاری سکیم کے عازمین حج کے رہائشی انتظامات میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ سعودی عرب میں حج مشن کے کئی افراد ایک ہی عمارت کا متعدد مرتبہ انسپکشن کرتے ہیں چنانچہ اس عرصہ میں بھارت کا حج مشن وہی عمارت اپنے حاجیوں کے لئے حاصل کر لیتا ہے۔ سعودی عرب میں بھارت کا قونصلیٹ کا عملہ کسی عمارت کا ایک مرتبہ معائنہ کرنے کے بعد عمارت حاصل کرلیا ہے۔ پاکستانی حاجیوں کے لئے عمارت کا حصول کا طریقہ بہت مشکل بنا دیا گیا ہے جس میں ایک عمارت کئی کئی افراد دیکھتے ہیں حالانکہ کسی عمارت کو ایک مرتبہ دیکھنے اور اس کی پیمائش کرنے کے بعد دوبارہ اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ماضی قریب میں پاکستان سے سرکاری سکیم میں جانے والے عازمین حج کے رہائشی انتظامات میں دوری کی شکایات کی بڑی وجہ انتظامات میں تاخیر ہوا کرتی تھی۔ سرکاری سکیم کے عازمین حج کے رہائشی انتظامات ڈائریکٹر جنرل کی تبدیلی سے ابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی حج پالیسی کا اعلان کرتے وقت رہائشی کرایوں کی شرح سے آگاہ کیا گیا ہے ورنہ گزشتہ برسوں میں حج پالیسی کا اعلان کرتے وقت کرایوں کی شرح بتا دی جاتی تھی۔ موسسہ جات کے نظام کے خاتمے کے بعد حجاج کرام کو اس بات کی اجازت ہے وہ کسی بھی کمپنی کی تواسط سے منی میں قیام و طعام کا انتظام کر سکتے ہیں۔ سعودی حکومت نے جن ملکوں کو 2019میں منیٰ میں جس مقام پر خیموں کی سہولت ملی تھی آئندہ پانچ سال تک انہی خیموں کے لئے پرانی جگہ میسر ہوگی۔ عازمین حج میں پہلے افریقہ کے حجاج یکم شوال سے مدینہ منورہ پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ شاہ فہد کے منصوبے کے تحت مسجد نبوی کو دور نبویؐ میں مدینہ منورہ کی کل آبادی والی علاقے تک توسیع دے دی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button