ColumnM Riaz Advocate

پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلاء کانفرنس

محمد ریاض ایڈووکیٹ

سوموار 17اپریل پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام سپریم کورٹ میں قائم پاکستان بار کونسل کے آفس میں آل پاکستان نمائندہ وکلاء کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ملک بھر سے وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کے 25سے زائد اعلیٰ ترین عہدیداران نے شرکت کی۔ جن میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین، سابق صدور سپریم کورٹ بار، سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل، سندھ بار کونسل، خیبر پختونخوا بار کونسل، بلوچستان بار کونسل اور اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین اور ایگزیکٹو کمیٹیوں کے چیئرمین، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ممبران کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر، نائب صدر، فنانس سیکرٹری ، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیساتھ ساتھ ملتان، بہاولپور،پشاور، ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ، لاڑکانہ، حیدرآبادسے ہائیکورٹس کی ذیلی تنظیموں کے صدور نے شرکت کی۔ آل پاکستان نمائندہ وکلاء کانفرنس کے اختتام کے بعد پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ کی جانب سے سپریم کورٹ بل پر حکم امتناع دینے کے خلاف 18اپریل یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا۔ اجلاس کے بعد وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ہارون الرشید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بڑے عرصہ سے وکلا برادری کے مطالبے کو وفاقی حکومت کی طرف سے منظور کئے گئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کی حمایت کرتے ہیں اور اس بل کی بقا کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑی تو دریغ نہیں کریں گے۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ہارون الرشید نے کہا پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلوں کے عہدیداران کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ازخود نوٹس کے اختیارات چیف جسٹس صاحبان اپنے لیے استعمال کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحبان کے ازخود نوٹس کے اختیار کے استعمال سے ملک کو نقصان ہوا، 2ججز کے از خود نوٹس پر انتخابات کا از خود نوٹس لیا گیا، پنجاب اور خیبر پختونخو انتخابات کا معاملہ ہائیکورٹس میں زیر التوا تھا، سپریم کورٹ کو خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیاں کیوں توڑی گئیں، اس پر ازخودنوٹس لیا جانا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس ایک جماعت کی مرضی آگے چلاتے ہوئے از خود نوٹس لیا گیا۔ وکلا نمائندگان نے کہا کہ تمام ادارے حدود میں رہتے ہوئے کردار ادا کریں ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے اپیل کا حق دیا، از خود نوٹس کے لیے قوانین بننے چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈین سپریم کورٹ بننے سے آج تک چیف جسٹس نے صرف 2ازخود نوٹس لیے، سپریم کورٹ کے حکم امتناعی پر احتجاج ریکارڈ کروائیں گے، عدالت حکم امتناعی واپس نہ ہوا تب تک احتجاج جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے منگل 18اپریل کو ملک بھر میں یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس موقع پر سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام بار ایسوسی ایشنوں کا کامیاب اجلاس کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وکلا برادری 2 دہائیوں سے از خود نوٹس میں اپیل مانگ رہی ہے، حکومت کے بل میں وکلا کے مطالبات منظور کئے گئے ہیں، احسن بھون نے پچھلے چند سالوں سے وکلاء تنظیموں کی جانب سے چیف جسٹس کے سوموٹو اختیار کے خلاف منظور ہونے والی قراردادوں کے حوالہ جات دیئے اور اس تاثر کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ حکومت وقت کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری کسی سیاسی چپقلش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ بل وکلاء تنظیموں کی جانب سے دہائیوں سے منظور ہونے والی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔ سپریم کورٹ کی فل باڈی نے گزشتہ سال پانچ ججز کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا نے کہا کہ آج کی کانفرنس میں 10بار ایسوسی ایشنوں کے صدور نے شرکت کی، ایک سیاسی جماعت کہہ رہی ہے کہ وکلا کی تحریک شروع ہو رہی ہے، جو لوگ کسی بار کے صدر بھی نہیں بنے وہ کیسے تحریک شروع کر سکتے ہیں۔ خود کو وکلا برادری کا خود ساختہ نمائندہ ظاہر کرنے والے 2007کی وکلا تحریک میں سابق آمر مشرف کی نمائندگی کر چکے، ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وکلا برادری کسی گھس بیٹھیے کو اپنے حقوق غصب نہیں کرنے دے گی۔ یاد رہے گزشتہ ہفتے ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ موثر نہیں ہو گا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔ حکم نامہ 8صفحات پر مشتمل تھا جسے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں۔ مجوزہ قانون کا مقصد چیف جسٹس کو انفرادی حیثیت میں از خود نوٹس لینے کے اختیارات سے محروم کرنا ہے۔ اسے ابتدائی طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کیا گیا اور صدر کی منظوری کے لیے بھیجا گیا، تاہم صدر مملکت نے یہ کہتے ہوئے اسے واپس بھیج دیا کہ مجوزہ قانون پارلیمنٹ کے اختیارات سے باہر ہے۔ وکلاء برادری نے اس امر پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ جو بل ابھی تک منظوری کے مراحل میں ہے، اس پر سپریم کورٹ کیسے حکم امتناعی جاری کر سکتی ہے۔ یہ تو سیدھا سیدھا پارلیمنٹ کے آئینی اختیارات پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ ریاست پاکستان میں جاری آئینی و سیاسی بحران نے پاکستان کے تمام مکاتب فکر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جسکی زد میں پاکستان کی وکلاء برادری اور معزز جج حضرات بھی شامل ہیں۔ ایک طرف سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء کا لاہور میں گول میز کانفرنس کا انعقاد تو دوسری جانب وکلاء برادری کی اعلی ترین تنظیموں کے اجلاس ، اسی طرح سپریم کورٹ کے معزز ججز کے درمیان بھی واضح تفریق دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جس کی جھلکیاں گزشتہ چند عرصہ سے دیکھنے کو مل رہی ہیں جیسا کہ ایک ہی موضوع پر سپریم کورٹ کے دو مختلف ججز گروپس کے 360ڈگری مختلف فیصلے۔ بہرحال ریاست پاکستان میں پائی جانے والی سیاسی ، آئینی، معاشی بے چینی اور بحران کے خاتمہ کے لئے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ریاست پاکستان کے دیگر بڑے سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button