ColumnImtiaz Aasi

سیاسی بحران ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

سیاسی جماعتوں کا آئین پر اجتماع ہونے کے باوجود آئین سے انحراف سمجھ سے بالاہے۔ ملکی تاریخ میں اس سے پہلے ایسی مثال نہیںکہ آئین سے انحراف کرکے الیکشن ملتوی کیا گیا ہو۔چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطاء بندیال نے حکومت کو آئین پر عمل درآمد سے لیت ولعل کرتے دیکھا تو الیکشن کے انعقادکااز خود نوٹس لے لیا۔عجیب تماشا ہے ایک طرف سیاسی جماعتوں کا آئین پر اتفاق ہے دوسری طرف آئین پرعمل درآمد سے انکاری ہیں۔ ہمیں یاد ہے مرحوم صدر فاروق خان لغاری نے بے نظیر حکومت کو برطرف کیا تو ان کے نگران وزیر اطلاعات کابینہ اجلاسوںمیں الیکشن موخر کرنے پر زور دیتے رہے لیکن صدر لغاری نے نوے روز میں الیکشن کا انعقاد کرکے آئین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ۔حالیہ سیاسی بحران میں بعض طالع آزما ء نگران سیٹ آپ کی مدت میں اضافہ کرنے کے لئے بنگلہ دیش اور بھارت کی مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء کی حکومت کے خاتمے کے بعد جو نگران سیٹ اپ لایا گیا وہ تین سال تک کام کرتا رہالہذا موجودہ نگران سیٹ آپ کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے ۔تعجب ہے اقتدار کی ہوس میں لوگ کیسی کیسی تاویلیں نکال لیتے ہیں۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کے لئے کوشاںہیں۔پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری نے سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ہے تاہم ایک بات واضح ہے وزیراعظم شہبا زشریف اور آصف زرداری عمران خان سے مذاکرات پر رضا مند ہو بھی جائیں تو پی ڈی ایم کے امیر مولانا فضل الرحمان کسی صورت رضامند نہیں ہوں گے ۔اگرچہ سیاسی قائدین میں مذاکرات کی امید کم ہے مذاکرات کی کوئی صورت نکل بھی آئے تو عمران خان اپنی جگہ اپنے نمائندوں کو بھیجیںگے ۔چنانچہ اس صورت حال میں بھی مذاکرات کی بہت کم امیدہے ۔یہ علیحدہ بحث ہے عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرکے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے ورنہ دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت کامیابی سے چل رہی تھی ۔اسمبلیاں تحلیل نہ کی جاتیں تو تحریک انصاف اس عرصے میں عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکتی تھی۔اسمبلیاں تحلیل کرکے ہوا کیا پی ٹی آئی کے کئی ورکرز مارے گئے عمران خان کو بذات خود گولیاں کھانی پڑیں۔ یہ تو ان کی زندگی نے یاوری کی ورنہ جس طرح انہیں گولیوں کو نشانہ بنایا گیا ان کا زندہ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ۔وفاق میں ایوان سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کو کیا حاصل ہوا ۔ایوان میں رہتے تو حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی تھی ۔تحریک انصاف نے حکومت کے لئے خود میدان خالی چھوڑا ہے ۔پنجاب میں پرویز الٰہی وزیراعلیٰ رہتے تو عمران خان کے لئے پنجاب ایک محفوظ پناہ گاہ تھی۔زمان پارک میں پولیس نے جس طرح دھاوا بولا تحریک انصاف کی حکومت ہوتی تویہ سب کچھ ممکن تھا؟۔حکو مت نے الیکشن کے لئے مطلوبہ رقم دینے سے معذوری ظاہر کی توسپریم کورٹ نے گورنر سٹیٹ بنک کو طلب کیا تو قائم مقام گورنر نے بیان دیا پیسے خزانے میں موجود ہیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے روبرو جھوٹ بول کر اپنی کمزوری ظاہر کر دی ۔حکومت کی دروغ گوئی نے عمران خان کے اس بیانیے کو سچا ثابت کر دیا ہے حکومت الیکشن سے راہ فرار کئے ہوئے ہے۔جناب چیف جسٹس کے حوصلے کو دادی دینی پڑتی ہے تادم تحریر حکومت کے منفی رویے کے باوجودسپریم کورٹ نے وزیراعظم اور نہ کسی اور کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی ہے بلکہ معاملات کو settle downکرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک سیکیورٹی معاملات کی بات ہے وہ صوبائی حکومت اور وزارت داخلہ نے فراہم کرنی ہے۔البتہ مسلم لیگ نون ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے عدلیہ میں نفاق ڈالنے میں پوری طرح کامیاب رہی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ نے زمان پارک میں افغانستان سے لوگوں کولانے کا نیا شوشا چھوڑا ہے ۔سوال ہے حکومت آپ کی ہے افغانستا ن سے لوگ زمان پارک کیسے پہنچ گئے اگر یہ بات سچ مان لی جائے ہے حکومت کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی ایک دوسرے ملک سے لوگ زمان پارک پہنچ گئے ۔عمران خان ضد کے بہت پکے ہیں وہ شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں سے ہاتھ ملانا گوارا نہیں کرتے حالانکہ جمہوریت میں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے عمران خان کا یہی رویہ رہا تو اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں ہوں گے ۔وزیر داخلہ بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے حکومت انتخابات کرانے میں بالکل سنجید ہ نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو دوام دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔عمران خان نے ساڑھے تین سالہ کانٹوں کی سیج بھری حکومت کیا کی ہر خرابی کا ذمہ دار تحریک انصاف ٹھہرایا جا رہا ہے۔مان لیا قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کو واپس لاکر آباد کیا گیا تو حالات خراب ہو گئے تو بلوچستان میں حالات خراب کیوں ہیں وہاں تو ٹی ٹی پی والوں کو لا کر آبادی کاری نہیں کی گئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے حکومت کو میاں نواز شریف کو واپس لانے کا کوئی محفوظ راست دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کئی سال بعد لندن سے سعودی عرب کی طویل مسافت اور عمرے کی تھکان کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے نواز شریف صحت مند ہیں۔ بس انہیں جیل جانے کا عارضہ ہے جس کے علاج معالجہ کے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو غیر فعال کرنے کی کوشش جاری ہے۔حیرت ہے سب لوگ تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ورنہ سیاسی بحران کے خاتمے کے لئے فریقین کو مذاکرات کی میز پر آسانی سے بیٹھایا جا سکتا تھا ۔ عمران خان نے تو واضح طور پر کہا ہے الیکشن نہ ہوا تو عوام کو سٹرکوں پر لے آئیںگے۔ہمارا ملک پہلے سے معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے عوام سٹرکوں پر نکل آئے تو حالات مزید خراب ہونے کا احتمال ہے ۔امیر جماعت اسلامی کی سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش قابل ستائش ہے لیکن سیاسی بحران حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button