Ahmad NaveedColumn

جامن کا پیڑ .. احمد نوید

احمد نوید

اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار کرشن چندر کا افسانہ جامن کا پیڑ ہندوستان میں دسویں جماعت کی نصابی کتابوں میں پڑھایا جاتا رہا ہے۔2019ء میں بھارتیہ جنتہ پارٹی نے اس افسانے کو درسی کتابوں سے نکال دیاتھا ۔ جامن کا پیڑ صرف ہندوستان کے سماج اور نظام کی ہی عکاسی نہیں کرتا بلکہ پاکستان کے معاشرتی رویوں اور سرکاری نظام کی بھی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ یہ افسانہ تقریباً ساٹھ سے ستر سال قبل لکھا گیا تھا مگر اس تحریر کے آفاقی ہونے کی بڑی نشانی یہ ہے کہ جامن کا پیڑ آج کا افسانہ لگتا ہے۔ جامن کا پیڑ ایک طنز یہ افسانہ ہے مگر حقیقت کے بہت قریب ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
جامن کا پیڑ
رات کو بڑے زور کا جھکڑ چلا۔ سکریٹریٹ کے لان میں جامن کا ایک درخت گر پڑا۔ صبح جب مالی نے دیکھا تو اسے معلوم پڑا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی دبا پڑا ہے۔ مالی دوڑا، دوڑا چپراسی کے پاس گیا۔ چپراسی دوڑا، دوڑا کلرک کے پاس گیا۔ کلرک دوڑا، دوڑا سپرنٹنڈنٹ کے پاس گیا۔ سپرنٹنڈنٹ دوڑا، دوڑا باہر لان میں آیا۔ منٹوں میں گرے ہوئے درخت کے نیچے دبے ہوئے آدمی کے گرد مجمع اکٹھا ہو گیا۔
بیچارا! جامن کا درخت کتنا پھل دار تھا۔ ایک کلرک بولا۔
اس کی جامن کتنی رسیلی ہوتی تھیں۔ دوسرا کلرک بولا۔ میں پھلوں کے موسم میں جھولی بھر کے لے جاتا تھا۔ میرے بچے اس کی جامنیں کتنی خوشی سے کھاتے تھے۔ تیسرے کلرک نے تقریباً آبدیدہ ہوکر کہا۔ مگر یہ آدمی، مالی نے دبی ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کیا۔
ہاں، یہ آدمی! سپرنٹنڈنٹ سوچ میں پڑ گیا۔ پتہ نہیں زندہ ہے کہ مر گیا! ایک چپراسی نے پوچھا۔
مر گیا ہوگا۔ اتنا بھاری تنا جس کی پیٹھ پر گرے، وہ بچ کیسے سکتا ہے! دوسرا چپراسی بولا۔ نہیں میں زندہ ہوں! دبے ہوئے آدمی نے بہ مشکل، کراہتے ہوئے کہا۔
زندہ ہے! ایک کلرک نے حیرت سے کہا۔ درخت کو ہٹاکر اس کو نکال لینا چاہیے۔ مالی نے مشورہ دیا۔
مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ایک کاہل اور موٹا چپراسی بولا۔ درخت کا تنا بہت بھاری اور وزنی ہے۔
کیا مشکل ہے؟ مالی بولا۔ اگر سپرنٹنڈنٹ صاحب حکم دے تو ابھی پندرہ، بیس مالی، چپراسی اور کلرک زور لگا کر درخت کے نیچے سے دبے آدمی کو نکال سکتے ہیں۔ مالی ٹھیک کہتا ہے۔ بہت سے کلرک ایک ساتھ بول پڑے۔ لگائو زور، ہم تیار ہیں۔ ایک دم بہت سے لوگ درخت کو کاٹنے پر تیار ہو گئے۔
ٹھہرو!، سپرنٹنڈنٹ بولا، میں انڈر سیکرٹری سے مشورہ کر لوں۔
سپرنٹنڈنٹ انڈر سیکرٹری کے پاس گیا۔ انڈر سیکرٹری، ڈپٹی سیکریٹری کے پاس گیا۔ ڈپٹی سیکرٹری جوائنٹ سکریٹری کے پاس گیا۔ جوائنٹ سیکرٹری چیف سیکرٹری کے پاس گیا۔
چیف سیکرٹری نے جوائنٹ سیکرٹری سے کچھ کہا۔ جوائنٹ سیکرٹری نے ڈپٹی سیکرٹری سے کچھ کہا۔ ڈپٹی سیکرٹری نے انڈر سیکرٹری سے کچھ کہا۔ ایک فائل بن گئی۔ فائل چلنے لگی۔ فائل چلتی رہی۔ اسی میں آدھا دن گزر گیا۔ دوپہر کو کھانے پر دبے ہوئے آدمی کے گرد بہت بھیڑ ہو گئی تھی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ کچھ من چلے کلرکوں نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔
وہ حکومت کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر درخت کو خود سے ہٹانے کا تہیہ کر رہے تھے کہ اتنے میں سپرنٹنڈنٹ فائل لئے بھاگا بھاگا آیا، بولا۔
ہم لوگ خود سے اس درخت کو یہاں سے ہٹا نہیں سکتے۔ ہم لوگ محکمہ تجارت سے متعلق ہیں اور یہ درخت کا معاملہ ہے جو محکمہ زراعت کی تحویل میں ہے۔ اس لئے میں اس فائل کو ارجنٹ مارک کرکے محکمہ زراعت میں بھیج رہا ہوں۔ وہاں سے جواب آتے ہی اس کو ہٹوا دیا جائے گا۔
دوسرے دن محکمہ زراعت سے جواب آیا کہ درخت ہٹوانے کی ذمہ داری محکمہ تجارت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ جواب پڑھ کر محکمہ تجارت کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے فوراً لکھا کہ درختوں کو ہٹوانے یا نہ ہٹوانے کی ذمہ داری محکمہ زراعت پر عائد ہوتی ہے۔ محکمہ تجارت کا اس معاملے سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسرے دن بھی فائل چلتی رہی۔ شام کو جواب بھی آ گیا۔ ہم اس معاملے کو ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ کے سپرد کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک
پھل دار درخت کا معاملہ ہے اور ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ صرف اناج اور کھیتی باڑی کے معاملوں میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ جامن کا درخت ایک پھل دار درخت ہے اس لئے درخت ہارٹی کلچرل ڈپارٹمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
رات کو مالی نے دبے ہوئے آدمی کو دال بھات کھلایا حالانکہ لان کے چاروں طرف پولیس کا پہرا تھا کہ کہیں لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر درخت کو خود سے ہٹوانے کی کوشش نہ کریں۔ مگر ایک پولیس کانسٹبل کو رحم آ گیا اور اس نے مالی کو دبے ہوئے آدمی کو کھانا کھلانے کی اجازت دے دی۔ مالی نے دبے ہوئے آدمی سے کہا، تمہاری
فائل چل رہی ہے۔ امید ہے کہ کل تک فیصلہ ہو جائیگا۔
دبا ہوا آدمی کچھ نہ بولا۔
مالی نے درخت کے تنے کو غور سے دیکھ کر کہا، حیرت گزری کہ تنا تمہارے کولہے پر گرا۔ اگر کمر پر گرتا تو ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔ دبا ہوا آدمی پھر بھی کچھ نہ بولا۔ مالی نے پھر کہا، تمہارا یہاں کوئی وارث ہو تو مجھے اس کا اتہ پتہ بتائو۔ میں اس کو خبر دینے کی کوشش کروںگا۔
میں لاوارث ہوں۔ دبے ہوئے آدمی نے بڑی مشکل سے کہا۔
افسانے میں آگے چل کر پتہ چلتا ہے کہ جامن کے پیڑ کے نیچے دبا شخص ایک شاعر ہے۔ اُس شاعر کی لاکھ منت سماجت کے باوجود کوئی شخص بھی اُسے پیڑ کے نیچے سے نکالنے پر آمادہ نہیں ہوتا، حتیٰ کہ جامن کے پیڑ کی فائل وزیراعظم تک پہنچ جاتی ہے۔ وزیر اعظم
صاحب اُس درخت کو کاٹنے کا حکم دیتے ہیں مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
ایک سپرنٹنڈنٹ بھاگا ہوا درخت کے پاس آتا ہے۔ شاعر سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔
سُنتے ہو۔ آج تمہاری فائل مکمل ہوگئی۔ سپرنٹنڈنٹ نے شاعر کے بازو کو ہلا کر کہا۔ مگر شاعر کا ہاتھ سرد تھا۔ آنکھوں کی پتلیاں بے جان تھیں اور چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار اُس کے منہ میں جارہی تھی۔
ہندوستان اور پاکستان میں ہر شخص جامن کے پیڑ کے نیچے دبا ہوا ہے۔ چند ایک زندہ بچ جاتے ہیں ، باقی ۔۔۔۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button