
عظمیٰ، برقعہ اور نظریہ ضرورت
ناصر نقوی
یہ بات نئی نہیں کہ نظریۂ ضرورت دفن کر دیا گیا ہے۔ اس کا تواتر سے سیاستدان، حکمران اور عدلیہ پرچار کر رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ نظریۂ ضرورت مرا ہی نہیں تو وہ دفن کیسے ہو گیا؟ نظریۂ ضرورت نے ہمیشہ ملک و قوم کی خدمت کی اور ہر دور میں حاضر سروس رہا، لہٰذا قومی خدمت میں مارا جانے والا اور حاضر سروس مر جانے والے شہید کہلاتے ہیں وہ وردی میں ہوں یا سادھے کپڑوں میں، ویسے بھی یہ بات قابل ذکر ہے کہ باوردی کے مقابلے میں سفید کپڑوں والے اکثر اوقات زیادہ اہم خدمات انجام دیتے ہیں بلکہ ان کی جان کو خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وردی کا تو اپنا رعب دبدبہ ہے، رہی بات شہادت کی تو اس پر تحقیق کر لیں، شہادت کے مختلف رتبے ہیں ،تمام مسالک ان پر متفق ہیں۔ البتہ درجہ بندی کی ترتیب میں فرق پایا جاسکتا ہے لیکن شہید ہونے یا نہ ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ملے گا، عدالت عظمیٰ جس طرح اس وقت غنڈوں میں رضیہ بے چاری کی طرح گھری ہوئی ہے یہ سب اس کا اپنا کیا دھرا ہے۔ آپ اختلاف کر سکتے ہیں اس لیے کہ اب حالات اس قدر بدتر ہو چکے ہیں کہ عالیہ ہو کہ عظمیٰ انتشار دیکھا جا سکتا ہے۔ کون حق پر ہے اور کسے باطل کہا جائے یہ آپ کی مرضی، اسی طرح تیسری اہم چیز برقعہ ہے ۔ پہلے اس کی بھی عدلیہ اور عظمیٰ کی طرح بڑی عزت و تکریم تھی لیکن آج کے ماڈرن دور میں بقول اکبر الٰہ آبادی عقلوں پر پڑ چکا ہے چونکہ اکبر الہٰ آبادی بھی قصّہ ماضی ہیں لہٰذا قیام پاکستان سے اب تک اپنی تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھیں تو یہ شرم و حیا کی علامت برقعہ دو مرتبہ قانونی جبر کا مقابلہ بھی کرتا دکھائی دے گا۔ ماضی قریب میں زبردستی کے صدر پرویز مشرف نے جب لال مسجد اور مدرسہ پر اسلام آباد میں چڑھائی کی تو وہاں موجود مولانا غازی رشید اس معرکہ آرائی میں مارے گئے جبکہ ان کے برادر حضرت مولانا عبدالعزیز کو کسی نادان دوست نے مشورہ دیتے ہوئے یہ سمجھایا کہ زندگی بچانے کا حکم ہے اس لیے آپ برقعہ پہن کر نکل لیں، جب جان پر بنی ہو تو کوئی مشورہ بھی اچھا لگ سکتا ہے یوں جان بچانے کی کوشش میں پکڑے گئے اور خاصی جگ ہنسائی بلکہ ہمیشہ کے لیے یہ واقعہ تاریخ کا حصّہ بن گیا۔ ایک برقعہ مولوی تمیز الدین نے آئین دشمنوں سے بچنے اور آئین بچانے کے لیے پہنا، وہ ہائی کورٹ تو پہنچ گئے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نظریۂ ضرورت کو تقویت دینے والے شریف الدین پیرزادہ ستمبر 1948ء میں بھی موجود تھے اس وقت وہ نیک نامی کے لیے مولوی تمیز الدین کی معاونت کرنا چاہتے تھے یعنی قبلہ درست تھا اس لیے راہ میں اسٹیبلشمنٹ آ گئی اور ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آ گیا اور وہ نہیں پہنچ سکے۔ تاہم منظر عالم ایڈووکیٹ نے مولوی صاحب کا ساتھ دیااور حکومتی دبائو کے باوجود درخواست ڈپٹی رجسٹرار روشن علی شاہ نے وصول کر لی۔ دھونس، دھاندلی اور دھمکی اس وقت بھی موجود تھی لیکن روشن علی شاہ کا موقف تھا کہ جو درخواست مجھ تک آ جائے اسے وصول کر کے کارروائی کے لیے پیش کروں گا ۔ موصوف سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کے والد گرامی تھے جبکہ شریف الدین پیرزاہ کی جگہ ڈرافٹ تحریر کرنے والے منظر عالم ایڈووکیٹ جسٹس مشیر عالم سپریم کورٹ کے چچا تھے۔ جبکہ شریف الدین پیرزادہ تو مرتے دم تک آمروں اور حکمرانوں کے لیے نظریۂ ضرورت کے تحت نکات تلاش کرنے کے ماہر تھے۔ اب ان جیسے دوسرے آ چکے ہیں ، مسئلہ بالکل آج جیسا ہی تھا۔ 1948ء میں بھی، کہ کیا گورنر جنرل، وزیراعظم کو برخاست کر سکتا ہے کہ نہیں، 58-2Bکا خاتمہ ہو چکا۔ صدر عارف علوی یقینا صدر غلام اسحاق اور صدر فاروق لغاری کی طرح طاقتور نہیں،وہ گھبرا سکتے ہیں کر کچھ نہیں سکتے، لیکن 63۔اے کی تشریح مانگ کر صدر عارف علوی نے ایک مسئلہ کھڑا کر دیا۔ عدالت عظمیٰ بھی اپنے طاقت سے رائے دینے کی بجائے پنچائیت سجا کر آئین پاکستان اور قانون ساز اسمبلی کو اپنی گرفت کے خواب پورے کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے تب ہی تو یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ بل پاس ہونے سے پہلے ہی ہم خیال اکٹھے ہو گئے۔ جسٹس منیر دنیا سے کوچ کر گئے لیکن آئین اور پاکستان سے کیا گیا کھلواڑ آج بھی جاری ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت اگر تقسیم در تقسیم دکھائی دے تو اعلیٰ ترین فیصلہ بھی مشکوک اور متنازعہ ہی قرار پائے گا۔ آئیے ایک مرتبہ پھر 1948ء سے 2023ء تک کی اس لڑائی کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں، ایسے میں ابتدائی معاملات ہی متنازعہ ثابت ہو جائیں گے، میرٹ، حق اور حق تلفی کی دھجیاں ہمیشہ اڑا کر طاقت وروں نے تالیاں بجوائیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس عبدالرشید کی مدت ملازمت ختم ہونے کو آئی تو سینئر ترین جج جسٹس اکرام بنگالی تھے جو گورنر جنرل غلام محمد اور جنرل محمد ایوب خاں کے وارے میں نہ تھے، اس لیے انہوں نے اپنی شرائط پر اپنے من پسند جج جسٹس محمد منیر سے سودے بازی کر لی کیونکہ وہ جنرل ایوب خاں کے یارغار تھے ۔ جسٹس اکرام کو دھمکی دی گئی کہ اگر وہ جان نہیں چھوڑیں گے تو نیا جسٹس برطانیہ سے امپورٹ کر لیا جائے گا۔ سازش کامیاب ہوئی اور جون 1954ء میں جسٹس محمد منیر چیف جسٹس بن گئے۔ حضرت قائداعظم کی رحلت کے بعد مولوی تمیز الدین قانون ساز اسمبلی کے سپیکر بنے اور اس ایوان نے محنت سے سات سالوں میں ایسا قانون بنایا جس میں گورنر جنرل سے وزیراعظم کی چھٹی کے اختیارات چھین لئے گئے تھے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ 1951ء سے 1958ء تک نہ صرف وزرائے اعظم فارغ کئے گئے بلکہ گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر 1954ء میں اسمبلی ہی توڑ دی تھی اور مولوی تمیز الدین اسی سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ برقعہ پہن کر پہنچے تھے، حکومت نے کیس کو دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا لیکن مولوی صاحب کے وکیل آئی آئی چندریگر نے اپنے دلائل سے یہ منوا لیا کہ اگر قانون پر صدر اسمبلی ( سپیکر) دستخط کر دے تو اسے گزٹ آف پاکستان میں نہ صرف شامل کر لیا جاتا ہے بلکہ اسے گورنر جنرل کی منظوری کی ضرورت نہیں، اس موقع پر حکومت نے گورنر جنرل کو تاج برطانیہ کا نمائندہ ظاہر کیا لیکن بحث و مباحثے میں یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ جب تاج برطانیہ کی ملکہ اور بادشاہ کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تو اس کا نمائندہ کیسے کر سکتا ہے؟ پھر ایک غیر مسلم جسٹس کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا گیا جس نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے دستور ساز اسمبلی اور مولوی تمیز الدین کو بحال کر دیا، اس وقت بھی آج کی طرح سپریم کورٹ میں اپیل کر کے ہم خیال ججوں کی راہ ہموار کر کے نظریۂ ضرورت کے موجد جسٹس محمد منیر سے حکومت نے بھرپور استفادہ حاصل کیا اس وقت بھی آج کی طرح ایک سینئر جج ایسے تھے جنہیں اس فیصلے میں رکاوٹ سمجھا گیا لہٰذا انہیں مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر جان چھڑا لی گئی اور پھر کارروائی کے بعد سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اس پانچ رکنی بینچ کا واحد اختلافی نوٹ جسٹس اے۔آر۔ کارنیلس کا تھا۔ اس تاریخی داستان حقیقت کو موجودہ آئینی بحران سے ملا کر دیکھیں، پرکھیں، بالکل غیر جانبدارانہ انداز میں پھر بتائیں کہ نظریۂ ضرورت جسے ایک سے زیادہ مرتبہ دفنانے کا دعویٰ کیا جا چکا ہے، زندہ ہے کہ نہیں؟۔ زمانہ بیت گیا، جسٹس محمد منیر، مولوی تمیز الدین، شریف الدین پیرزادہ، جنرل ایوب خاں، پرویز مشرف سب کے سب منوں مٹی تلے سو چکے ہیں لیکن جسٹس منیر کا نظریۂ ضرورت، اس کی حمایت کرنے والے بھی موجود ہیں اور مولوی تمیز الدین کی طرح قانون ساز اسمبلی پارلیمنٹ کی لڑائی لڑنے والے بھی ہیں کہانی وہی پرانی ہے، شریف الدین پیرزادہ کی طرح آئینی بحران میں نت نئے مشورہ دینے والوں کی بھی کمی نہیں، اسی لیے وطن عزیز اپنے پرائے مفادات کے غلاموں کی سازشوں میں گھرا ہے اور معاملہ سلجھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک مطالبہ سابق وزیراعظم عمران خان کا ہے کہ ہر حال میں الیکشن کیونکہ بحرانوں سے نجات کا واحد حل یہی ہے اور ایک ہی فیصلہ اتحادی حکومت کا ہے کہ فی الحال ملک کے حالات، خزانہ اور سیکیورٹی خدشات الیکشن کے لیے سازگار نہیں، لہٰذا الیکشن اپنے وقت پر اور اکٹھے ہوں گے۔ سیانے افہام و تفہیم سے مل بیٹھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ پارلیمنٹ اور عدالت کی لڑائی ملک و ملت کے لیے نیک شگون نہیں، لیکن ضد آڑے آ رہی ہے۔ دنیا میں پاکستان تماشا بن گیا ہے پھر بھی کوئی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں، حکومت، پاکستان بار کونسل نے فل کورٹ بنا کر آئینی بحران ختم کرنے کی تجویز دی لیکن عدالت عظمیٰ نو رکنی سے کھیلتی کھلاتی تین پر آئی ، پارلیمنٹ ، حکومت اور وزراء ڈٹ گئے تو پھر ان کی نااہلی کے لیے 8رکنی ہم خیالوں پر آ گئی، سینئر ججز ایک بار پھر نظر انداز کر دئیے گئے جس وقت یہ سطور آپ تک پہنچیں گی تو شائد فیصلہ اور نیا بحران بھی سامنے آ چکا ہو لیکن پوری پاکستانی کہانی کا جائزہ لے کر فیصلہ آپ خود کریں کہ حقیقت کیا؟ کون حق پر ہے اور کون باطل قوتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ملک و قوم کو نقصان پہنچا رہا ہے اور سوچیں کہ آئینی لڑائی میں عظمیٰ، برقعہ اور نظریۂ ضرورت کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے؟