تازہ ترینخبریںپاکستان

عمران خان پر 121 مقدمات کے اخراج کی درخواست، عدالت کی لارجر بینچ بنانے کی سفارش

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف 121 مقدمات کے اخراج کی درخواست سماعت کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی گئی اور کہا کہ کیس کی لارجر بینچ سماعت کرے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف درج 121 مقدمات کے اخراج کے لیے دائر درخواست کی لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا موقف پیش کیا جب کہ مدعی اور سرکاری وکلا نے اپنے دلائل پیش کیے۔

سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حاضری ضروری نہیں تھی لیکن وہ آج بھی پیش ہوئے۔ ان کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مقدمات درج ہو رہے ہیں اور وہ روز کی بنیاد پر عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ تاریخ میں کسی ایک شخص کے خلاف اتنے مقدمات کی نظیر نہیں ملتی۔

سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج ہو رہے ہیں اور ان کی آڑ میں ان کے گھر پر چھاپے مار کر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کے خلاف عمران خان کیخلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کے بعد اب ذاتی نوعیت کے مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ عدالت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس درخواست کی پیشی کا فیصلہ درست ہے کیونکہ روز آکر ضمانت لینا مسائل کا حل نہیں۔ کل بھی 9 کیسز میں ضمانت کے لیے پیش ہونا ہے۔ عید آنے والی ہے اور تعطیلات کے باعث عدالتیں بند ہوں گی۔ خدشہ ہے کہ عید کی چھٹیوں میں پولیس دھاوا بول سکتی ہے۔

عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ پہلے بھی عدالت نے تادیبی کارروائی سے روکا مگر جو ہوا سب نے دیکھا۔ چاہتے ہیں عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نیا مقدمہ درج نہ کیا جائے۔ ہم عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ پولیس آکرعدالت کو بتائے کہ انہیں گرفتاری کیوں چاہیے۔

اس موقع پر عمران خان کے ایک اور وکیل انور منصور ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی رہنما کوعوام میں جانے نہیں دیا جا رہا۔ اگر سیاسی رہنما عوام میں نہیں جائے گا تو اپنا نکتہ نظر کیسے پہنچائے گا۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔

عدالت میں سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ انکوائری جوائن نہیں کریں گے تو تفتیش کیسے ہوگی۔ یہ درخواست ہائی کورٹ میں نہیں ہوسکتی۔ فوجداری کارروائی پر حکم امتناعی جاری نہیں ہو سکتا۔

عدالت نے کہا کہ اگر کوئی نیا واقعہ ہو تو اس پر تو قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ آپ یقین دہانی کروائیں پرانے واقعے کی بنیاد نئی ایف آئی آر درج نہیں کریں گے۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب درخواست گزار کو بلایا جاتا ہے تو وہ نہیں آتا۔ اس کیس میں ریلیف لینے کے لیے خود آیا۔ یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔ خدشات کی بنیادپردرخواست دائر نہیں کی جا سکتی۔

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ تفتیش کیلیے عدالت سے اجازت کی استدعا قانون کے مطابق نہیں۔ عدالتیں ایسی استدعا کو مسترد کرتی آئی ہیں۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ موجود نہیں۔ عدالت ہی ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے۔ میری وکالت کی تاریخ میں ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ ریاستی مشینری کو بدترین طریقے سے پہلے استعمال نہیں کیا گیا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ تادیبی کارروائی سے روکنے کا حکم دے۔

وکلا کے دلائل اور عمران خان کا موقف سننے کے بعد عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔ سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت کے دو رکنی بینچ نے مذکورہ کیس کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دیا اور کہا کہ عمران خان کی درخواست پر لارجر بینچ سماعت کرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button