ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیاسی ریڈنگ ۔۔ تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

 

پاکستان کے قرضے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق معیشت کا 74فیصد ہیں، پاکستان کے ایف آر ڈی ایل
FiscalResponsibilityand debt limitations act 2005 قانون کے تحت قرضے معیشت کا 60فیصد ہونے چاہئیں۔ حکومتی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ ڈیفالٹ سے کیا ہوتا ہے، ہم سے بڑے کئی ملک ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن کے اس بیانیہ کی بھی ہوا نکل دی، جس کو تحریک عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ ن عمران خان کے خلاف جواز بنا کر پیش کر رہی تھی۔ ملک ڈیفالٹ کرنے والا تھا، ہم نے یہ بوجھ اٹھا کر ملک کو بچایا ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما روحیل اصغر نے انٹر نیشنل میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ اگر عمران خان ایک سال اور رہتا تو ملک کو بچانا مشکل تھا، اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ماضی میں مخالف تھی ان کے مطلق ایسے بیان دئیے گئے تھے ، اب تھوڑا کھلے دل سے تسلیم کریں کہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ جانی اور ملی نقصان اٹھایا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے قریب نہیں رہی، مسلم لیگ ن اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی رہی، ایک بیانیہ یہ بھی رہا کہ ملک میں معاشی بہتری کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں لا سکتی سب کو مل کر کرنا ہو گا، آج اتحادی حکومت ہے اور ملکی صورت حال بھی واضح ہے۔ ورلڈ بینک کی رسک آئوٹ لُک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مالیاتی خسارہ 6.7فیصد تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح محض 0.4فیصد رہنے کا امکان ہے ، پٹرولیم مصنوعات 55فیصد اور بجلی 47فیصد مہنگی عوام خرید رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگلے مالی سال 2025ء تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ، مہنگائی، ادائیگیوں کا بوجھ بڑھنے کا خدشہ ہے، 2025ء تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 2.2فیصد تک پہنچ جائے گا، چینی اور آئی ایم ایف کی ادائیگیاں بھی سر پر کھڑی ہوں گی، معاشی صورتحال انتہائی خراب بتائی جا رہی ہے، اگلے الیکشن میں جو جماعت جیت کر حکومت میں آئے گی اس کے پاس عوام کو تسلی اور نعروں کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا حکومت کا پلاننگ ڈویژن اور ریسرچ ورک بند ہو چکا ہے، صرف ضد پر کھڑے ہیں، حکومت الیکشن نہ کروانے پر بضد ہے، عوام کے ساتھ سپریم کورٹ کے آرڈر کو مسترد کر کے خطرہ مول لینے کے لیے تیار کھڑی ہے، ان کیمرہ اجلاس میں بھی عوام ہی کو سپریم کہا گیا ہے لیکن اتحادی حکومت کمبل کو پکڑے ہوئے ہے۔ وزیر صحت قادر پٹیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ آصف زرداری کریں گے، قادر پٹیل نے جس طرف اشارہ کیا ہے اس کی حقیقت کو سب جانتے ہیں لیکن عمران خان لینے دینے کی پالیسی کو تسلیم اس لیے نہیں کرے گا کیوں کہ پاکستان تحریک انصاف کو یقین ہے کہ اگلی حکومت کے لیے عوام ان کو منتخب کریں گے، پی ٹی آئی کا احتسابی نعرہ بھی بے وزن ہو چکا ہے، احتساب کے مشیر شہزاد اکبر پتہ نہیں کہاں ہیں، معید یوسف نیشنل سکیورٹی والے کہاں ہیں کوئی خبر نہیں اور انڈسٹری کے وزیر خسرو بختیار جیسے وفاداروں کے بعد ملک کی معاشی حالت ایسی ہی ہوتی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق گروتھ ریٹ اور مہنگائی زیادہ رہنے کے باعث خط غربت میں کمی نہیں ہو سکے گی۔ آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود پاکستان کو زرمبادلہ ذخائر میں کمی کا سامنا ہے، استحکام کے لیے معاشی ٹیم کو اکنامک ریفامز، اسٹریٹجی پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے لیکن حکومت کا فوکس پہلے عمران خان اور اس کے بیانیہ کو کرش کرنا تھا اور آج کل سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہیں۔ اللہ کرے حکومت ان اعداد و شمار کو سمجھ جائے، مہنگائی نے عوام کو بے بس کر دیا ہے جن کی سہولت کے لیے تحریک عدم اعتماد لائی گئی ان کے لیے روزگار کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ خدارا آرمی چیف صاحب کی بات ہی تسلیم کر لیں، پرانے اور نئے پاکستان کے چکر کو چھوڑ کر ہمارے پاکستان کی بات کر لیں۔ یہ 22کروڑ لوگ مہنگائی سے پس رہے ہیں محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے اختتام پر 2022ء میں مہنگائی کی شرح 7۔12فیصد تھی جو مارچ 2023ء کے اختتام پر 4۔35فیصد ہو چکی ہے ، اچھے کاروباری افراد مجبور ہو چکے ہیں سوال یہ ہے کیا کوئی سیاسی جماعت الیکشن کے بغیر بے اپنے مقاصد حاصل کر سکتی ہے، کب تک ایسی صورتحال کا سامنا رہے گا لوگوں سوال پوچھ رہے ہیں۔ واضح پالیسی نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے تمام شرطیں تسلیم کرنے کے بعد بھی فنڈز کی فراہمی پر شک و شبہات برقرار ہیں ، اتحادی حکومت ایک سال پورا کر چکی ہے لیکن ماسوائے اپنے تحفظ بل پاس کروانے کے کچھ نظر نہیں آیا ، ان کمرہ اجلاس میں بھی واضح کہا گیا کہ اپ اپنی منزل کا تعین کریں ہم اپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ایک سال گزار گیا، کیا حکومت کو ابھی بھی اپنی منزل کا تعین کرنا باقی ہے، پارلیمنٹ سپریم عوام کے ووٹ سے بنتی ہے لیکن پچھلے ایک سال سے پارلیمنٹ میں وہ بل پیش کئے گئے ہیں جن سے ان کو اپنا تحفظ مقصود تھا۔ نفرت، بغاوت اور تقسیم غیر جمہوری اقدامات، نا انصافی اور عوامی سہولیات کی عدم فراہمی سے جنم لیتا ہے یہ جنم بڑی تیزی سے ہو رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button