CM RizwanColumn

ہمارے پاکستان کی بات ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

پاک فوج کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سابقہ غلطیوں کے اعتراف کے بعد ازالے اور ملکی بہتری کے لئے کئے گئے فیصلے اور آئندہ ادارے کی سیاست سے دور رہنے والی پالیسی کے عین مطابق نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنی تعیناتی سے لے کر آج تک بہترین کام کر رہے ہیں۔ مگر ملک میں سیاسی آمریت کے خواہاں ایک خود ساختہ کپتان نہ صرف اس امر پر بضد ہیں کہ موجودہ آرمی چیف بھی سیاست میں باجوہ کی طرح دخیل ہوں بلکہ ان کو اقتدار بھی اسی طرح پلیٹ میں رکھ کر دلوا دیں جس طرح سابقہ فوجی قیادت نے بندوبست کیا تھا۔ قوم اور فوج کی محب وطن عسکری قیادت جانتی ہے کہ عمران پراجیکٹ لانے سے ملک کا اتنا نقصان ہوا کہ آج ہمیں ڈیفالٹ کے خطرات درپیش ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ میں آئینی بحران عروج پر ہے۔ تیسرا یہ کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ مفقود ہو گئی ہے۔ ایسے میں نئے پاکستان کا ناکام اور ناکارہ نعرہ لگا کر عمران خان کے عشاق ملکی وجود کے لئے خطرناک کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ کھیل کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہا اگر سابقہ طریقہ کار سے کام لیا جاتا تو اب بھی آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنے کسی ماتحت کے ذریعے ان خطرناک کھلاڑیوں کو فون کال کے ذریعے ان کے مضرت رساں کھیل سے انہیں روک سکتے تھے لیکن انہوں نے ملکی استحکام کو اولیت دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں آکر بات کرنے کا فیصلہ کیا اور واضح طور پر کہہ دیا کہ ’’ آج ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث چھوڑ کر ’’ ہمارے پاکستان‘‘ کی بات کرنی چاہیے‘‘۔ انہوں نے یہ جمہوری اصول بھی کھل کر بیان کر دیا کہ آئین پاکستان اور پارلیمنٹ عوام کی رائے کا مظہر ہیں اور عوام اپنی رائے آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ طاقت کا محور عوام ہیں، آئین کہتا ہے کہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت قومی اسمبلی کے اس ان کیمرا سیشن میں دیگر عسکری حکام بھی شریک ہوئے۔ آرمی چیف نے تجویز دی کہ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں، پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی، انہوں نے اس امر کا بھی اعادہ کیا کہ ملک میں دائمی قیامِ امن کے لئے سکیورٹی فورسز مستعد ہیں۔ قبل ازیں آرمی چیف کی آمد پر اراکین اسمبلی اور وفاقی وزرا نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا جبکہ عسکری حکام کی جانب سے شرکاء کو ملکی سکیورٹی صورت حال پر بریفنگ بھی دی گئی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں آرمی چیف نے 1973ء کے آئین کے نفاذ کے 50سال مکمل ہونے پر ارکان کو مبارکباد بھی دی اور کہا کہ سینٹر آف گریویٹی پاکستان کے عوام ہیں۔ اللہ کے فضل سے اس وقت پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں رہا۔ اس کامیابی کے پیچھے ایک کثیر تعداد شہداء و غازیان کی ہے، شہداء و غازیان نے اپنے خون سے اس وطن کی آبیاری کی، ان میں 80ہزار سے زائد افراد نے قربانیاں پیش کیں جن میں 20ہزار سے زائد غازیان اور 10ہزار سے زائد شہداء کا خون شامل ہے۔ جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے لئے ریاست کی رٹ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، انہوں نے ایک اور وضاحت بھی کردی کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کا خمیازہ ان کی مزید گروہ بندی کی صورت میں سامنے آیا ہے مگر ملک میں دائمی قیامِ امن کے لئے سکیورٹی فورسز مستعد ہیں، اس سلسلے میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری ہیں۔ پاکستان کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں ہے، عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں۔ ایک سال پہلے جب عمران خان وزیراعظم نہیں رہے تھے اور پارلیمان کی جانب سے ایک وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر جانا پڑا تھا تو ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے خود کو غیر جانبدار قرار دینے کا اعلان بھی سامنے آیا۔ یوں ملک میں ایک نئے سیاسی باب کا آغاز ہوا لیکن ایک جانب جہاں اقتدار سے رخصت ہو کر دوبارہ حزب اختلاف میں جانے والی پاکستان تحریک انصاف نی اس فیصلے کے خلاف احتجاج در احتجاج کا سلسلہ شروع کیا وہیں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو معاشی میدان سمیت ہر محاذ پر چیلنجز کا سامنا رہا۔ اسی سیاسی ہلچل کے تسلسل میں مختلف نشیب و فراز سے گزر کر عمران خان کی جانب سے پہلے پنجاب کی صوبائی اسمبلی جنوری 2023ء کے وسط میں تحلیل کی گئی اور اس کے چار روز بعد ہی خیبر پختونخوا کی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔ تاہم 90روز میں انتخابات کا انعقاد نہ ہو سکا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے اپریل کے اواخر میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو کیا مگر سیکیورٹی اور مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث اس اعلان کو بدلتے ہوئے 8 اکتوبر کو پنجاب کے انتخاب کی تاریخ دے دی گئی۔ ایک بار پھر معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور 14مئی کو پنجاب کے انتخابات کا شیڈول کا اعلان کر دیا گیا۔ بہر حال کچھ بھی ہو اب تک کی صورت حال کے مطابق تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ 2023ء ملک میں عام انتخابات کا سال ہے جبکہ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی مجبوریوں نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کیا اور ان مجبوریوں میں سب سے بڑی مجبوری یہ تھی کہ عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم آئی ایم ایف سے انتہائی سخت شرائط پر معاہدہ کیا تھا اور پھر اپنے اقتدار کے خاتمے کا یقین ہوتے ہی انتہائی بے دردی سے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کر دیا تھا تھا جس پر آئی ایم ایف نے آئندہ مزید سخت رویہ اختیار کر لیا اور اب تک موجودہ حکومت مشکلات کا شکار ہے۔ حالانکہ سیاسی محاذ کی صورت حال یہ تھی کہ مارچ 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک آنے سے ایک سال قبل عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات شروع ہو چکی تھیں اور ان کی مقبولیت کا گراف بھی گر رہا تھا جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں نہ صرف اس دور میں ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی تھی بلکہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی پی ٹی آئی کے مقابلے میں جے یو آئی کو کامیابی ملی۔ عدم اعتماد سے پہلے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عوام کے بڑے حلقے میں پذیرائی مل رہی تھی اور اسی باعث اپوزیشن کا اس وقت کی حکمران جماعت پی ٹی آئی پر دبائو بھی برقرار تھا۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بوجوہ حکمران اتحاد کو عوام کی وہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی ہے اور وہ تمام ذی شعور پاکستانی جانتے ہیں کہ عمران خان کی پیدا کردہ ہے۔ انہی وجوہات نے اب عمران خان کی مقبولیت میں تھوڑا اضافہ کر دیا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ حکومت کے پاس بظاہر ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر وہ ووٹر کے سامنے اس بیانیے کو آگے لے جا سکیں۔ عمران خان کو اب صاف نظر آ رہا ہے کہ انتخابات میں انہیں کامیابی ملے گی اور اگر ایسا ہوا تو یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ کسی کو اقتدار سے الگ کیا گیا ہو اور اسے دوبارہ کامیابی مل جائے۔ تاہم عمران خان نے سیاسی طور پر خود ہی اپنے لئے کچھ مسائل کھڑے کئے۔ ان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنا اور اسٹیبلشمنٹ پر بے جا تنقید کرنا شامل ہے۔ اس وقت پاکستان میں تین بڑے چیلنج ہیں۔ ایک معاشی بحران جو ختم ہو جائے گا صرف اس صورت میں کہ موجودہ برسراقتدار دور اندیش حکومت کو چند ماہ اور کام کرنے اور آئندہ بجٹ دینے دیا جائے۔ دوسرا سیاسی بحران جس میں بات چیت کے دروازے تو کھلتے نظر آ رہے ہیں لیکن ضدی عمران خان کی موجودگی میں بہتری کی امید نہیں لگائی جا سکتی اور تیسرا عدلیہ کا بحران جس میں تقسیم اور ججز کے آپس کے اختلافات سامنے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف ن لیگ یا پی ڈی ایم حکومت کی مشکلات ہیں جن میں سرفہرست یہ ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ حقیقت میں بہت کچھ ہے یعنی ملک کو ڈیفالٹ سے بچاتے بچاتے اب اس کامیاب موڑ پر لے آنا کہ اب آئی ایم ایف مان گیا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے شروع ہوتے ہی ملک پر ڈالروں کی برسات اس قدر ہوگی کہ یہ 2018ء کی پوزیشن پر واپس چلا جائے گا لیکن اگر اب اگر ملک میں الیکشن یا کوئی اور ایڈونچر کیا گیا تو ملک کا معاشی طور پر ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اس صورت حال میں جو سب سے بڑی بد قسمتی ہے وہ یہ ہے کہ بہت بڑی بہتری جو خواص کو تو نظر آرہی ہے عوام کو نہیں کیونکہ عوام کی اکثریت عمران خان کا بیانیہ تھوک کے حساب سے خرید چکی ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا واحد حل فوری انتخابات ہیں حالانکہ اس وقت انتخابات کے چکر میں پڑنے سے ملک کا شدید نقصان ہوگا۔ اس وقت یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ عمران پراجیکٹ کی ناکامی اور عدم اعتماد کے بعد اب عمران خان کی جانب سے کسی بھی طرح سے اقتدار میں آنے کی دیوانہ وار مضر رساں کوششوں سے ملک کا کتنا نقصان ہوا ہے اور مزید اس کی خواہش پر اسمبلیاں توڑنے بنانے کے کھیل سے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جب تک عمران خان کی ذاتی خواہشات کی یہ لڑائی ملک میں جاری رہے گی کہ کس کو پاور میں لانا ہے اور جو پاور میں ہے اس پر کس قدر دبا رکھنا ہے۔ نئے پاکستان اور پرانے پاکستان کی بحث اور لڑائیوں میں الجھا کر ملکی استحکام کے عوض اقتدار کا کھیل کھیلنا ہے تب تک نقصان اور تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اسی لئے انتہائی دور اندیشی اور صاف گوئی کے ساتھ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک و قوم سے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ نئے اور پرانے پاکستان کی بحث میں الجھنے کی بجائے اب ہمارے پاکستان کی بات کی جائے۔ یعنی ملکی معیشت کو پٹڑی پر چڑھ لینے دیا جائے۔ اور منتخب حکومت کو کم از کم اس کا آئینی عرصہ تو پورا کر لینے دیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button