ColumnHabib Ullah Qamar

مہمند ڈیم کی تعمیر اور سعودی امداد ۔۔ حبیب الله قمر

حبیب اللہ قمر

سعودی عرب نے مہمند ڈیم پراجیکٹ کیلئے 24کروڑ ڈالر قرض معاہدے پر دستخط کر دئیے۔ سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ ( ایس ایف ڈی) کے چیف ایگزیکٹو افسر سلطان عبدالرحمان المرشد اور وفاقی سیکرٹری اقتصادی امور کاظم نیاز نے سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی کی موجودگی میں معاہدے پر دستخط کئے۔ وزارت اقتصادی امور کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ قرض کی فراہمی کا یہ معاہدہ ترقی کو فروغ دینے اور پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں سعودی عرب اور پاکستان کی درمیان مضبوط شراکت داری کا عکاس ہے۔ مہمند ڈیم پراجیکٹ پانی اور غذائی سلامتی کو تقویت دینے کے علاوہ خیبر پختونخوا میں لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔ مہمند ڈیم پراجیکٹ کو سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ، اوپیک، اسلامی ترقیاتی بینک اور کویت فنڈ فار عرب اکنامک ڈویلپمنٹ کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی جارہی ہے، توقع ہے کہ منصوبہ کی تکمیل سے پاکستان میں توانائی اور پانی کے شعبوں پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔ اس منصوبہ سے ابتدائی طورپر800میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی، اسی طرح 16 لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ پائیدار زراعت کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرے گا۔ اس منصوبہ سے 6ہزار 773ہیکٹر اراضی کو آبپاشی کے قابل بنایا جاسکے گا۔ معاہدہ کے دوران سعودی فنڈ کے سی ای او نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مضبوط ترقیاتی تعاون پر زور دیا اور کہا کہ معاہدہ ایس ایف ڈی کی جانب سے پاکستان میں اپنے قیام کے بعد سے ترقیاتی منصوبوں اور پروگراموں کے لیے جاری تعاون کی ایک کڑی ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کا ادارہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور انداز میں حصہ لے رہا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ سعودی عرب دیامر، بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے پاکستان کو ہر ممکن امداد فراہم کرے گا۔ سعودی عرب نے جامشورو پاور پراجیکٹ، جاگران ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، حویلی بہادر شاہ، بھکی پاور پلانٹ، آئل ریفائنری اور دیگر منصوبوں کے حوالے سے بھی بھرپور تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران بہت سے منصوبوں پر تو سعودی ترقیاتی فنڈ کا ادارہ پہلے سے کام کر رہا ہے اور وسیع پیمانے پر امداد بھی دی جارہی ہے تاہم حالیہ برسوں میں اس حوالے سے مزید کئی ایک بڑے معاہدے کیے گئے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت بجلی کی کمی اور اس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت مسائل کا سامنا ہے۔ پاور سیکٹر میں جس طرح حکومتوں کو کام کرنا چاہیے تھا اس طرح کسی دور حکومت میں نہیں ہوا۔ نئے ڈیم بھی تعمیر نہیں ہو سکے جس سے مہنگی بجلی پیدا ہو رہی ہے، عوام پر اس کا بے پناہ بوجھ ہے تو دوسری جانب ہر سال بارشوں کے موسم میں سیلابی پانی سے بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کیوسک پانی کے یہ ریلے تباہی مچاتے ہوئے سمندر میں جا گرتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک ملک میں صرف دو میگا ڈیمز کی تعمیر ہوئی ہے جن میں سے ایک منگلا ڈیم ہے جو 1967ء میں تعمیر ہوا اور دوسرا تربیلا ڈیم ہے جو 1974ء میں مکمل کیا گیا۔ اس کے علاوہ کالاباغ سمیت اور کوئی ڈیم نہیں بنایا جاسکا۔ مہمند ڈیم جس کی تعمیر کے لیے افتتاح بھی ہو چکا ہے، دریائے سوات پر قبائلی ضلع مہمند میں تعمیر کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں جب اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو کہا گیا تھا کہ یہ منصوبہ پانچ سال میں مکمل کیا جائے گالیکن ابھی اس سلسلہ میں بہت کام باقی ہے۔ مہمند ڈیم پشاور شہر سے اڑتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر کنکریٹ کی مدد سے تعمیر کیا جانے والا ڈیم ہے جس کی اونچائی 213میٹر ہوگی اور اس سے آٹھ سو میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکے گی۔ ڈیم کی تعمیر سے بننے والی مصنوعی جھیل میں 13لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی جمع ہو سکتا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ سات گیٹ پر مشتمل ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف سالانہ 2800گیگا واٹ سے زیادہ بجلی بنائی جائی گی بلکہ اس کی مدد سے چارسدہ اور نوشہرہ ضلع کو سیلاب سے متاثر ہونے سے بھی بچایا جا سکے گا۔ اسی طرح مہمند ڈیم کی تعمیر سے سولہ ہزار ایکڑ کی زمین زراعت کے قابل ہو جائے گی اور پشاور شہر کے باسیوں کو 460کیوسک پینے کا پانی مہیا ہو جائے گا۔ ماہرین کو امید ہے کہ کنکریٹ سے بننے والے ڈیم کے لیے ملک میں سیمنٹ کی صنعت کو بھی فروغ ملے گا کیونکہ اس کی تعمیر کے لیے تقریبا 15لاکھ ٹن سیمنٹ کی ضرورت پیش آئے گی۔ مہمند ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ماضی کا جائزہ لیں تو 2003ء میں اس وقت کی حکومت نے ایک امریکی کمپنی سے ڈیم کی تعمیر کیلئے معاہدے کا اشارہ دیا تھا لیکن عملا ایسا نہیں ہو سکا۔2010ء میں جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب آیا تو سپریم کورٹ نے جاری کی گئی رپورٹ میں حکومت پر زور دیا کہ وہ ڈیم کی تعمیر جلد سے جلد شروع کرے۔ اسی مد میں حکومت نے 2012ء میں ڈیم کی تعمیر سے پہلے انجینئرنگ ڈیزائن کا عمل شروع کیا جس کے بعد فرانسیسی حکومت کی عالمی ترقیاتی ادارے اے ایف ڈی نے منصوبے میں دلچسپی دکھائی لیکن اس بار بھی منصوبے کی تکمیل ایک خواب ہی رہی۔ طویل انتظار کے بعد دو سال قبل اپریل میں نیشنل اکنامک کونسل نے مہمند ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کی منظوری دی جس پر حکومت نے منصوبے کے لیے اربوں روپے کی خطیر رقم مختص کی اور اب سنجیدگی سے اس کی تعمیر کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ ڈیم کی تعمیر پر تین سو نو ارب روپے سے زیادہ لاگت آئے گی اور اس کی تکمیل کے بعد سالانہ اکیاون ارب روپے کی ملک کو بچت ہو گی۔ سعودی عرب نے جس طرح مہمند ٹیم کی تعمیر کے لیے چوبیس کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دی ہے اور دیامر، بھاشا اور دوسرے ڈیموں کی تعمیر کے لیے ہر ممکن امداد کے وعدے کیے گئے ہیں، اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کے یہ میگا پراجیکٹ بھی جلد مکمل ہوجائیں گے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ جس کی طرف سے مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، اس سے قبل بھی پاکستان میں تعلیم، صحت اور دیگر شعبہ جات میں بڑے پیمانے پر ریلیف سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ بارہ سال قبل شدید سیلاب کی وجہ سے خیبر پی کے میں کالام، مدین اور بحرین کی طرف جانے والے سبھی پل بہہ گئے اور ان علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا تھا ، یہ سارے پل سعودی ترقیاتی فنڈ کی طرف سے دوبارہ تعمیر کروائے گئے ہیں۔ سعودی ترقیاتی فنڈ نے شمالی علاقہ جات میں دو نہریں تعمیر کروائیں جس سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب ہو رہی ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کی جامع کشمیر میں عبداللہ کیمپس، مظفر آباد میں کنگ عبداللہ یونیورسٹی اور ویمن یونیورسٹی باغ اور راولا کوٹ میں ڈسٹرکٹ کمپلیکس تعمیر کروائے گئے جبکہ راولا کوٹ اور باغ میں دو ہزار سے زائد رہائشی یونٹس بنانے کی منظوری دی گئی۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کی جانب سے پاکستان میں زلزلے اور سیلابوں کے دوران جتنی ریلیف سرگرمیاں سرانجام دی گئی ہیں کوئی اور ادارہ یہ خدمت نہیں کر سکا۔ سعودی ترقیاتی فنڈ کی تمام تر رفاہی و فلاحی سرگرمیاں پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی براہ راست مانیٹر کرتے ہیں۔ سعودی ترقیاتی فنڈ نے اب تک پاکستان میں تقریباً 41ترقیاتی منصوبوں اور پروگراموں کے حوالے سے مالی اعانت فراہم کی ہے جس کی مالیت تقریباً ایک ارب 40کروڑ ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ ایس ایف ڈی نے 2019ء اور 2023ء کے درمیان پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے 4ارب 40کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ مالیت کا موخر ادائیگی پر مبنی تیل کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے خصوصی تعاون کرنے پر پوری پاکستانی قوم برادر ملک کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ سعودی عوام وطن عزیز پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں تو پاکستانی قوم بھی سعودی عرب کے دفاع و استحکام کیلئے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار نظر آتی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کی ایک دوسرے سے محبت کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اس وقت ماضی کی نسبت بہت اچھے تعلقات ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کے مسائل اور ضروریات کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاک، سعودی دوستی آنے والے دنوں میں مزید پروان چڑھے گی اور عقیدہ کی بنیاد پر قائم یہ رشتے ان شاء اللہ قائم و دائم رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button