تازہ ترینخبریںصحتصحت و سائنس

ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنا کیا صحت کے لیے اچھا نہیں؟

کیا آپ بہت آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں؟ ایک لمحے کی لیے رُک جائیے اور پہلو بدلے بغیر دیکھیے کہ آپ کے بیٹھنے کاا انداز کیسا ہے۔ آپ کی ٹانگیں کیا کر رہی ہیں؟ کیا ایک ٹانگ دوسری پر چڑھی ہوئی ہے؟ کیا آپ بھی ان لوگوں جیسے ہیں جو بائیں ٹانگ پر دائیں ٹانگ رکھ کر بیٹھتے ہیں یا دائیں ٹانگ پر بائیں ٹانگ چڑھا کر بیٹھتے ہیں؟

تحقیق کے مطابق 62 فیصد لوگ بائیں پر دائیں ٹانگ رکھ کر بیٹھتے ہیں، 26 فیصد اس کا الٹ کرتے ہیں اور 12 فیصد لوگوں کی کوئی خاص ترجیح نہیں ہوتی یعنی کبھی وہ دائیں پر بائیں ٹانگ چڑھا کر بیٹھتے ہیں اور کبھی اس کا الٹ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ لوگوں کے کرسی پر بیٹھنے کے دو انداز ہوتے ہیں، کچھ لوگ پوری ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھ کے بیٹھتے ہیں اور کچھ ٹخنے کراس کر کے بیٹھتے ہیں۔ اگرچہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنا خاصا آرام دہ محسوس ہوتا ہے لیکن کیا یوں کرنا آپ کی صحت اور آپ کی ہڈیوں اور اعصاب کے لیے بُرا ثابت ہوتا ہے۔

چلیے اس کے لیے کچھ تجربات پر نظر ڈالتے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ آلتی پالتی مار کے بیٹھتے ہیں تو آپ کے کولہے اوپر نیچے ہو سکتے ہیں اور ان کا توازن خراب ہو سکتا ہے۔ اس سے آپ کا ایک کولہا اوپر اور دوسرا نیچے ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ آپ کے نچلے دھڑ میں خون کی گردش کی رفتار متاثر ہو جاتی ہے جس سے خون جمنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اکثر تحقیق میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھانا، ٹخنے پر ٹخنہ چڑھا کر بیٹھنے سے زیادہ خراب ثابت ہوتا ہے۔ دراصل اس طرح بیٹھے رہنے سے رگوں میں خون جمع ہونے کی وجہ سے ہمارے بلڈ پریشر میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے دل کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ڈاکٹر یا نرسیں آپ کا بلڈ پریشر لیتے ہیں تو وہ آپ کو اپنے پیر زمین پر لگائے رکھنے کا کہتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ آپ جتنی دیر تک ٹانگیں کراس کر کے بیٹھے رہیں گے، آپ کے پٹھوں کی لمبائی اور پیلوس (کمر کے نیچے) میں ہڈیوں کی ترتیب میں طویل مدتی تبدیلیوں کا امکان اتنا ہی زیادہ ہو جائے گا۔

گردن کی ہڈیوں میں تبدیلی کی وجہ سے سر کی پوزیشن خراب ہو سکتی ہے کیونکہ ہماری ریڑھ کی ہڈی کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہمارے جسم میں کشش ثقل کا مرکز جسم کے عین درمیان میں رہے لیکن جب ہم ٹانگ پr ٹانگ چڑھائے بیھٹے رہتے ہیں تو ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

مزید یہ کہ انسانی ڈھانچے کی ساخت ایسی ہے کہ ٹانگوں کو ایک دوسرے پر چڑھا کر بیٹھنے سے ہماری ریڑھ کی ہڈی اور کندھے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ یوں بیٹھنے سے آپ کی گردن بھی متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ ہماری گردن جسم کی باقی ہڈیوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے۔

اسی قسم کی توازن کی کمی کئی لوگوں میں اکثر کمر کے پٹھوں اور کمر کے نچلے حصے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس کی وجہ بیٹھنے کا غلط انداز ہوتا ہے۔

یہی عدم توازن عام طور پر کمر کے پٹھوں اور کمر کے نچلے حصے میں بھی دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ خراب پوزیشن ہوتی ہے اور ساتھ ہی کراس ٹانگوں کے بیٹھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اس سے ایک طرف گلوٹیل (کولہے) کے عضلات کے لمبے عرصے تک پھیلنے کی وجہ سے ہمارا پیلوس بھی بے ترتیب ہو جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ کولہے کمزور ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح طویل وقت تک ٹانگوں کو کراس کر کے بیٹھے رہنے سے سکولیئسِز (ریڑھ کی ہڈی کا ٹیڑھا پن) اور دیگر خرابیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

اس کے علاوہ، اکثر لوگوں میں ’ٹروکینٹرک پین سنڈروم‘ یا کولہے اور ران کے بیرونی حصے میں مستقل درد کے امکانات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ٹانگیں کراس کر کے بیٹھنے سے نیچے والی ٹانگ کی پیرونل نروو یا بڑی رگ کے دب جانے اور اس میں چوٹ کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ چیز اکثر پاؤں کے انگوٹھے میں کمزوری اور زمین پر غلط انداز میں پاؤں رکھنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

اگرچہ زیادہ تر لوگوں میں یہ کیفیت تھوڑے وقت کے لیے ہوتی ہے اور چند منٹ بعد آپ کی پیرونل نروو معمول پر آ جاتی ہے تاہم بعض اوقات یہ کیفیت زیادہ مدت تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔

اس بات کے ثبوت بھی موجود ہیں کہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھے رہنے سے مردوں میں سپرم کی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خصیوں کا درجہ حرارت عام جسم کے درجہ حرارت سے دو ڈگری سینٹی گریڈ سے چھ ڈگری سینٹی گریڈ تک زیادہ ہونا چاہیے۔

لیکن بیٹھنے سے خصیوں کا درجہ حرارت دو ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے اور ٹانگوں کو کراس کر کے بیٹھنے سے خصیوں کا درجہ حرارت 3.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جاتا ہے۔

مختلف مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ خصیوں کے درجہ حرارت میں اضافہ اکثر سپرم کی تعداد اور ان کی تولیدی صلاحیت دونوں کو کم کرتا ہے۔

یاد رہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان جسمانی فرق کی وجہ سے، خواتین کے لیے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھنا آسان ہوتا ہے، خاص طور پر چونکہ مرد اپنے کولہے کو ایک حد سے زیادہ حرکت نہیں دے سکتے۔

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ٹانگیں کراس کر کے بیٹھنا کچھ لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر سنہ 2016 میں چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ جن لوگوں کی ایک ٹانگ دوسری سے لمبی ہوتی ہے، ان کے لیے کراس ٹانگوں پر بیٹھنے سے کولہے کی دونوں اطراف کی اونچائی میں توازن قائم رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں بھی مسئلہ کم ہوتا ہے۔

کراس ٹانگوں کے ساتھ بیٹھنے سے کچھ عضلات کو کم کام کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر آپ کی جلد کے اندر ان عضلات میں سرگرمی کم ہو جاتی ہے جو کولہے کے قریب ہوتے ہیں۔ اس سے آپ کے کچھ بنیادی عضلات کو آرام ملتا ہے اور انھیں ضرورت سے زیادہ ورزش نہیں کرنا پڑتی۔

اسی طرح، ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے سے سکروئیلیاک (ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگوں کے درمیان وزن کی منتقلی کرنے والے جوڑوں) کو اپنی جگہ پر رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یوگا کی مشہور تکنیک یعنی مراقبہ کی پوزیشن میں بیٹھنا آپ کے جوڑوں کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔

کیا یوگا کی اس پوزیشن میں طویل وقت گزارنے سے اسی قسم کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جو کرسی پر کراس ٹانگوں کے ساتھ بیٹھنے سے پیدا ہو سکتے ہیں، اس حوالے سے ابھی تک زیادہ تحقیق سامنے نہیں آئی۔

تاہم، یوگا کئی لوگوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتا ہے، یہاں تک کہ یوگا سے ان لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے جو پہلے سے ہی گھٹنے کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

تو پھر آخری بات کیا ہوئی؟ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے کا نقصان زیادہ ہے یا فائدہ؟

اگر آپ ٹانگیں کراس کیے بغیر بیٹھ سکتے ہیں تو شاید یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن مسائل کو ٹانگیں کراس کر کے بیٹھنے سے جوڑا جاتا ہے، ان میں سے اکثر کا تعلق دوسری چیزوں سے بھی ہوتا ہے، جیسے ہمارا لائف سٹائل کیسا ہے، ہم ہر وقت بیٹھے تو نہیں رہتے، اور ہمارا وزن کتنا ہے۔

ایک بات جس کا ہمیں بہرحال خیال رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک ہی پوزیشن میں بہت دیر تک نہ بیٹھیں اور حرکت کرتے رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button