Editorial

ہر سال یومِ دستور منانے کا بڑا اعلان

ہر سال یومِ دستور منانے کا بڑا اعلان
کسی بھی ملک کے دستور پر اُس کی ترقی، خوش حالی اور استحکام کا دارومدار ہوتا ہے۔ آئین میں مروج اصولوں پر عمل درآمد میں قوموں کی بقا و سلامتی پنہاں ہوتی ہے۔ برطانوی دستور کو اقوام عالم میں خاصا سراہا جاتا ہے، یہ دُنیا کا واحد آئین ہے جو تحریری شکل میں نہیں۔ اسی طرح اور دیگر مملکتوں کے دساتیر بھی اُن کو اقوام عالم میں ممتاز مقام دلانے میں کلیدی اہمیت کے حامل ثابت ہوئے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ جمہوری تقاضوں سے ہم آہنگ آئین کی اُس کی روح کے مطابق پاس داری کی جائی تو یہ ہر لحاظ سے ملک و قوم کے کے لیے بہترین ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان کا آئین بھی دُنیا بھر میں سراہا جاتا ہے۔ 1973کا دستور ملک کا متفقہ آئین ہے، جسے 10اپریل 1973کو قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا۔ یہ قومی تاریخ کا یادگار دن اور اہم سنگِ میل تھا، اسے کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ روز ملکی آئین کو 50برس مکمل ہوگئے، اس سلسلے میں اس کے شایان شان کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے آئین کی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں منعقدہ پُروقار کنونشن میں پیش کردہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ وزیراعظم کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973کے آئین کی گولڈن جوبلی کی قرارداد کنونشن میں پیش کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ 1973کا آئین تنوع اور پاکستان کے اتحاد کا منفرد مظہر ہے، کہ یہ صوبوں کی وحدت اور وفاق کے سیاسی اتحاد کو یقینی بناتے ہوئے ان کے حقوق اور خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے، 1973 کا آئین دستور کے اصولوں کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کی رہنمائی اور جذبہ کا ذریعہ ہے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ 1973کے آئین میں گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان کے عوام کی تبدیل ہوتی ضروریات اور خواہشات کو سمونے کیلئے ترمیم ہوتی رہی اور یقینی بنایا جاتا رہا کہ دستور وقت کے مطابق اپنی افادیت برقرار رکھے۔ آئین کی گولڈن جوبلی مناتے ہوئے اس کے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کیلئی اپنے پختہ عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ کنونشن پاکستان کی پارلیمنٹ پر زور دیتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین1973 کی خوشی مناتے ہوئے بانیان پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1973کے آئین کی بنیادیں رکھیں اور ان تمام شخصیات کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران دستور کی بہتری اور ترقی میں کاوشوں کی صورت اپنا حصہ ڈالا ہے۔ 1973کے آئین کو پاکستان کی جمہوریت کی بنیاد تصور کرتے ہیں جو پاکستان کے زیرانتظام تمام خطوں کے تمام طبقات کو نمائندگی اور شرکت فراہم کرتا ہے، آئین میں درج جمہوری اصولوں، قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف کی بالادستی کے عہد کا اعادہ کرتے ہیں۔ قرارداد میں کہاگیا ہے کہ 1973کے آئین پر عملدرآمد، اس کی بالادستی، آئین میں درج اصولوں، اقدار اور مقاصد کی بالادستی و پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے عدلیہ، انتظامیہ اور پارلیمان کے کردار کی تحسین کرتے ہیں، قرارداد میں کہا گیا کہ ریاست کے تمام ادارے 1973کے آئین پر مکمل عملدرآمد کریں اور تمام وہ ضروری اقدامات کریں جن سے پاکستان کے عوام کے حقوق و مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ یہ کنونشن 1973 کے آئین کی تیاری اور منظوری کی تاریخ اور ورثے پر فخر کا اظہار کرتا ہے جس میں وفاقیت (فیڈرل ازم)، اختیارات کی تین ریاستی اداروں میں تقسیم، عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری، صوبائی خودمختاری اور شہریوں کے بنیادی حقوق درج ہیں۔ کنونشن نے قرارداد میں فیڈرل ازم کے اصولوں کو بالادست رکھنی کی اہمیت پر زور دیا ہے جو دستور کے بنیادی اجزا میں سے ہے، یہ کنونشن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی روح کے مطابق اس کا دفاع، سلامتی اور حفاظت کا عہد کرتا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے آئین کی اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت اور اس یقین پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے کہ آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ بن کر ان کی رہنمائی کرتا رہے گا اور انہیں جذبہ دلاتا رہے گا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ کنونشن 10اپریل 2023کو قومی یوم دستور کے طور پر منانے کا اعلان کرتا ہے جو ہر سال 1973کے آئین کی منظوری کی یاد میں ملک بھر میں منایا جائے گا۔ یہ دن پاکستان کے عوام کو آئین اور ملک کیلئے اس کی اہمیت سے آگاہ کرے گا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ کنونشن متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ عہد کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے اور آئین کی بالادستی اور اس کے اصولوں کی پاسداری کیلئے مل کر کام کریں گے۔ دوسری جانب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی آئین کو نصاب تعلیم کا حصہ بنانے کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ آئین کو مطالعہ پاکستان، تاریخ، اردو اور انگریزی کی نصابی کتابوں میں شامل کیا جائے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ نصاب میں آئین پڑھانے سے نوجوانوں میں شعور پیدا ہوگا، وہ آئین شکنوں کو پہچانیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے دستور پاکستان 1973کے 50سال مکمل ہونے پر قوم کو مبارک پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1973کا آئین قائداعظمؒ، علامہ اقبالؒ اور بانیان پاکستان کی بصیرت کا نچوڑ ہے، جس نے قوم کو متحد کررکھا ہے، تاریخ میں پہلی بار تمام جماعتوں نے مل کر آئین کی طاقت سے ووٹ چور، سلیکٹڈ اور مسلط کیے گئے ٹولے کو اقتدار سے نکال باہر کیا، ملک کو معاشی ترقی و خود انحصاری سے ہمکنار کرکے اور عوام کی زندگیوں میں آسانیاں لاکر آئین کی طاقت اور شان بڑھائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دستور کے 50سال مکمل ہونے پر اپنے خصوصی پیغام میں کیا۔ وزیراعظم نے دستور کا تحفہ دینے والے تمام قائدین، جماعتوں اور ارکان پارلیمان کوخراج عقیدت پیش کیا۔ہر سال 10اپریل کو یوم دستور منانے کا فیصلہ بلاشبہ بڑا صائب اور قومی امنگوں کا ترجمان ہے۔ اس امر کی جتنی توصیف کی جائے، کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سال اس دن کو اس کی اہمیت اور تقاضوں کے عین مطابق اس کے شایان شان منایا جائے اور اس حوالے سے رِیت کو مضبوطی عطا کی جائے۔ آئین پر عمل درآمد اور پاسداری میں تمام اداروں کے کردار کی تحسین بھی خوش کُن امر ہے۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئین کو نصاب تعلیم کا حصہ بنانے کی قرارداد کی منظوری بھی شاندار اقدام کہلاتا ہے۔ اس سے طلباء کو ملکی دستور سے متعلق معلومات اور آگہی حاصل ہوسکے گی۔ اس کی ضرورت بھی عرصہ دراز سے محسوس کی جارہی تھی۔ ہم ان سطور کے ذریعے کہنا چاہیں گے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن ملکی آئین کو مضبوطی عطا کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، قائدین اور رہنمائوں کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ عصر حاضر کی ضرورت بھی ہے اور تقاضا بھی۔ ملک اس وقت نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ اس موقع پر تمام سیاسی گروہوں کو باہمی چپقلش کو بھلاتے ہوئے ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بھارت: انتہا پسند ہندوئوں کا نمازیوں پر حملہ
بھارت اقلیتوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ ملک ہے۔ وہاں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک عرصہ دراز سے جاری ہے۔ مودی حکومت کے دوران انتہاپسندہندوئوں کی بدمعاشی عروج پر پہنچ گئی ہے اور اقلیتوں کے حوالے سے صورت حال انتہائی تشویش ناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ بدترین اور بہیمانہ واقعات کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ وہاں سکھ محفوظ ہیں نہ عیسائی، سکھوں کی جانب سے خالصتان کی تحریک عرصہ دراز سے جاری ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارتی انتہاپسند ہندوئوں کے مظالم سے تنگ کم و بیش 50تحاریک بھارت بھر میں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہیں، جو ایک نہ ایک دن بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا باعث ضرور بنیں گی۔ بھارت دُنیا بھر میں اپنا شائن چہرہ بڑے فخر سے پیش کرتا ہے اور یہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ اُس کے ہاں اقلیتوں کو تمام تر حقوق حاصل ہیں، یہ سراسر جھوٹ اور ڈھکوسلہ ہے، کیونکہ وہاں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دی گئی ہے۔ اُن کو ہر جگہ پر بدترین تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں اُنہیں اُن کے بنیادی حقوق بھی میسر نہیں، بلکہ اُن پر ظلم و ستم کے سلسلے دراز ہیں۔ ہجوم کا جب جی چاہتا ہے کسی مسلمان کو اپنے تعصب کا نشانہ بناکر مختلف حیلے بہانوں سے اُس کی جان لے لیتے ہیں۔ مسلمان لڑکیوں کی عصمت دری کے واقعات بھی بھارت پر بدنما داغ ہیں۔ جان و مال کا تحفظ اُنہیں حاصل نہیں۔ عبادات کرنے تک کی آزادی اُنہیں میسر نہیں۔ مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی وہاں محفوظ نہیں۔ اُن کو شہید کرنے اور حملہ آور ہونے کے لاتعداد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ گزشتہ روز بھی انتہا پسند ہندوئوں نے نمازیوں پر حملہ کیا اور مسجد میں توڑ پھوڑ کی۔ بھارت کی ریاست ہریانہ میں ایک ہندو توا مسلح گروپ نے نماز ادا کرنے والے مسلمانوں پر حملہ کیا اور مسجد میں توڑ پھوڑ کی، جس کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مسلح ہندو دہشت گردوں نے ریاست کے شہر سونی پت کے علاقے صندل کلاں میں اُس وقت حملہ کرکے ایک درجن سے زائد نمازیوں کو زخمی کر دیا اور مسجد میں توڑ پھوڑ کی، جب مسلمان نماز ادا کر رہے تھے۔ مسلمانوں پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ حملہ آور ہاتھوں میں تلواریں، خنجر اور بانس کی لاٹھیاں پکڑے آزاد گھومتے نظر آرہے تھے۔ زخمیوں کو سونی پت کے سول اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اس واقعہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔ کم از کم لوگوں کو اُن کی مذہبی عبادات تو سکون سے کرنے دی جائے۔ انتہا پسند مودی کے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک آخر کب بند ہوگا؟ اس حوالے سے عالمی ضمیر کب بیدار ہوں گے۔ کب وہ بھارت کو ایسی منفی سرگرمیوں سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے؟ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور ادارے بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے اس قسم کے واقعات کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ بھارت کو اس ضمن میں سخت وارننگ دی جائے کہ وہ اپنے ہاں انتہاپسندی اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات پر قابو پائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اُس پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد کی جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button