ColumnHabib Ullah Qamar

فلسطینیوں پر مظالم اور اقوام متحدہ کا کردار .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

اسرائیل کی غاصب فورسز نے بدترین دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس میں نماز تراویح ادا کرنے والے مسلمانوں کو وحشیانہ ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا ہے۔ اس دوران بیسیوں نمازی زخمی ہوئے اور چار سو کے قریب مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیاگیا ہے۔ اسرائیلی فوجی درندے اس وقت مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے جب سینکڑوں مسلمان رمضان المبارک کی شب نماز تراویح میں مصروف تھے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں پیش آنے والے اس واقعہ پر جہاں مقامی فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا ہے وہیں، دنیا بھر میں مسلمانوں کی طرف سے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور دوسرے مسلمان ملکوں نے اسرائیلی فورسز کی اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی دنیا کو نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے۔ عالمی سطح پر انصاف، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کرنیو الے اداروں کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی انتقامی حربوں پر کسی صورت خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ فلسطین میں غاصب اسرائیل کی ظلم و دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اور روزانہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ رمضان المبارک میں یہودیوں کی جانب سے تقریبا روزانہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ حال ہی میں پیش آنے والے واقعات سے پوری مسلم امہ میں خاص طور پر سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ غاصب اسرائیل کی دہشت گردی ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن کسی طرف سے کوئی مضبوط آواز بلند نہیں کی جارہی۔
امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ جیسے ادارے تو درپردہ اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس مسئلہ فلسطین پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا تو امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا جس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوئی کہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبردار ملکوں اور اداروں کو مسلمانوں کے مسائل سے کسی طور کوئی دلچسپی نہیں ہے اور انہوںنے ہمیشہ اسرائیل اور بھارت جیسی غاصب قوتوں کو مسلمانوں پر ظلم و دہشت گردی کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد دنیا کو تباہی و بربادی سے بچانا تھا اور اس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے مخلصانہ کوششیں کی جائیں گی، تمام قومیں برابر ہوں گی، انہیں مساوی حقوق ملیں گے اور انہیں حق خودارادیت دیا جائے گا لیکن حقیقت ہے کہ یہ ادارہ اپنے طے کردہ مقاصد میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کی تقسیم کا معاملہ ہو تو یہ ادارہ فی الفور حرکت میں آجاتا ہے لیکن فلسطین، کشمیر، برما اور دیگر خطوں میں مسلمانوں کے قتل عام پر اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یو این کی طرف سے ہر سال فلسطینی عوام سے یکجہتی کا دن بھی منایا جاتا ہے مگر جب اسرائیلی ظلم و بربریت روکنے کی بات آتی ہے تو مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ یعنی فلسطین میں قیام امن کی باتیں زوروشور سے کی جائیں گی مگر اس حوالے سے یو این کی جانب سے کوئی عملی کاوش کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس نے ہمیشہ امریکہ ، یورپ، اسرائیل اور دیگر بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلہ پر یو این نے درجنوں قراردادیں منظور کر رکھی ہیں لیکن اسرائیل اور بھارت نے ان قراردادوں کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا اور کبھی ان پر عمل درآمد نہیں کیا مگر لاکھوں انسانوں کا خون بہانے والے ان دہشت گرد ملکوں کیخلاف کبھی کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ اقوام متحدہ میں شامل بڑی طاقتوں نے اس ادارے کو اپنی لونڈی بنا رکھا ہے اور دنیا میں امن کی بجائے وہ اسے مسلمانوں کیخلاف کھل کر استعمال کر رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں رفاہی و فلاحی تنظیموں پر یہ کہہ کر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں کہ یہ نام نہاد دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن اس کی اپنی یہ صورتحال ہے کہ عراق پر اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر حملہ کرکے لاکھوں انسان قتل کر دئیے گئے لیکن یو این کا ادارہ مصلحتوں کا شکار رہا۔ افغانستان میں بھی اسی طرح نہتے انسانوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین، کشمیر، برما اور دیگر خطوں کی بھی یہی صورتحال ہے مگر اقوام متحدہ کی طرف سے ان بڑے عالمی دہشت گردوں کے خلاف کبھی کوئی مضبوط بیان تک نہیں دیا گیا۔ اس وقت بھی دیکھ لیں فلسطین میں رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں اسرائیلی درندوں کی
دہشت گردا کارروائیاں عروج پر ہیں لیکن اس کا ہاتھ روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا جارہا۔ امریکہ کی بات کی جائے تو اس نے فلسطین کی حمایت میں منظور کردہ قرار دادوں کے موقع پر بھی ہمیشہ صیہونی ریاست کا ساتھ دیا ہے۔ کبھی قرار دادوں کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے ویٹو پاور کا استعمال کیا تو کبھی رائے شماری سے ہی راہ فرار اختیار کر لی گئی۔ یعنی امریکہ نے ہر اہم موقع پر فلسطینیوں کو جائز حقوق دئیے جانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک اجلاس تک نہیں بلا سکتے۔ اسرائیل نصف صدی سے زائد عرصہ سے نہتے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ ہر روز بمباری اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں کے ذریعہ پھول جیسے بچوں کو مسلا جاتا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین سمیت کوئی فلسطینی اسرائیلی جارحیت اور اس کی بدترین دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے مگر کوئی اس غاصب سرطانی جرثومے اسرائیل کا ہاتھ نہیں روک رہا کہ وہ انبیاء کی سرزمین فلسطین پر آگ اور خون کی ہولی کیوں کھیل رہا ہے؟ سب بین الاقوامی طاقتیں اور ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کے قتل و خون کی ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اسرائیلیوں نے غزہ کو خاص طور پر کھنڈر بنا کر رکھ دیا ہے مگر اس کی بربریت رکنے میں نہیں آرہی۔ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہیں۔ مظلوم فلسطینی مد د کیلئے پکار رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ باہم متحد ہو کر اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ جس طرح شاہ فیصل شہید رحمۃ اللہ نے مسلم دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی ایک بار پھر انہی جذبوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ جیسے اداروں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں یہ مسلمانوں کے مسائل کبھی حل نہیں کریں گے بلکہ ان کا مقصد ہی مسلمانوں کو تنازعات میں الجھانا ہوتا ہے۔ برادر ملک سعودی عرب نے درست کہا ہے کہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ پورے خطے کو غلط سمت میں دھکیل دے گا اور یہ کہ اس تنازع کا حتمی تصفیہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں ہونا چاہیے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔ او آئی سی نے بھی فلسطینیوں پر ظلم و دہشت گردی کی ہمیشہ مذمت کی اور اسرائیل کے توسیعی منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے جبکہ پاکستان نے بھی فلسطین میں نہتے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور مظلوم فلسطینیوں کو ایک صف میں کھڑا نہ کیا جائے۔ پاکستان ہر فورم پر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتا رہے گا۔ پاکستان میں عوامی سطح پر فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے مظالم کے حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائے اور مسلم دنیا کو ساتھ ملا کر تمام بین الاقوامی فورم پر اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف نا صرف یہ کہ بھرپور آواز بلند کی جائے بلکہ آئندہ کے لیے متفقہ طور پر کوئی مضبوط لائحہ عمل بھی اختیار کیا جائے تاکہ مظلوم مسلمانوں کو غاصب قوتوں کی دہشت گردی سے تحفظ دلایا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button