CM RizwanColumn

جمہوری غیرت سے عاری جمہوریہ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

یہ فقرہ عام طور پر سیاست دانوں کے لبوں پر ہوتا ہے کہ ’’ پاکستان میں جمہوری عمل چلتے رہنا چاہیے‘‘۔ جبکہ ملک کی حقیقی جمہوری تاریخ چیخ چیخ کر یہ بتا رہی ہے کہ یہاں کے جمہوری عمل میں بھٹو سے لے کر عمران خان تک وہی پارٹی اپنے اپنے وقت میں مقبول ترین سیاسی جماعت رہی ہے جو اپنے اپنے دور میں کنگز پارٹی رہی ہے۔ پھر جوں ہی اس سے کنگز پارٹی کا لیبل ہٹا وہ پارٹی اقتدار سے بھی باہر ہو گئی اور عوام کے پسندیدہ معیار سے بھی گر گئی یعنی جو پارٹی جب تک کنگز پارٹی رہتی ہے ہمارے عوام بھی اس قدر ’’ جمہوریت پسند‘‘ ہیں کہ وہ تب تک ہی عوام کی مقبول ترین پارٹی ہوتی ہے۔ پھر جوں ہی کوئی سیاسی جماعت طاقت ور حلقوں سے اشیر باد سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کا حشر ق لیگ جیسا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ ظلم بھی ہر بار دیکھا گیا ہے کہ جوں ہی کوئی کنگز پارٹی چھومنتر سے اقتدار میں آجاتی ہے تو یہ فقرہ بھی سننے کو لازمی طور پر ملتا ہے کہ’’ آج جمہوریت کی جیت ہوئی اور ہم جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دینا چاہتے‘‘، لیکن یہ جمہوریت کیا بلا ہے۔ یہ سوال اگر آپ کسی بھی عام پاکستانی سے پوچھیں تو وہ شاید ہی آپ کو اپنے جواب سے مطمئن کر سکے کیونکہ اسے آج تک جمہوریت کے حقیقی معنوں سے آشنا ہی نہیں کروایا گیا۔ اسے واقفیت، تعلق اور تھانے کچہری میں امداد کے نام پر ووٹ دینے کا شعور ہے اور بس۔ اسے اپنے حلقہ انتخاب میں چند لٹیروں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوتا ہے۔ اقتدار کے رسیا سیاسی اشرافیہ کو بھی اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عوام جمہوریت کے لغوی معنی و مفہموم سے آشنا ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن پون صدی کے سیاسی بکھیڑوں سے الجھ کر عوام کو اب اتنا ضرور علم ہو گیا ہے کہ موجودہ دور جمہوریت کا ہے یا پھر ڈکٹیٹرشپ کا۔ کیونکہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پاکستانیوں نے دونوں اقسام کے ادوار حکومت بخوبی دیکھے اور بھگتے ہیں۔ جمہوریت انگریزی کے لفظ Democracyکے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو دو الفاظ Demosیعنی لوگ اور Kratosیعنی طاقت اور قوت کا مجموعہ ہے۔ جمہوریت کے بارے میں مفکرین نے کئی تعریفیں دی ہیں۔ ارسطو کے مطابق ہجوم کی حکومت جمہوریت کہلاتی ہے ۔ سیلی کے مطابق جمہوریت ایک ایسے طرز حکومت کو کہتے ہیں جس میں سب شریک ہوتے ہیں ۔ اور سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے, عوام کے لئے جمہوریت کہلاتی ہے ۔ ان تمام مفکرین کی دی گئی تعریفات کی روشنی میں اگر ہم اپنے جمہوری نظام کی بات کریں تو ارسطو اور سیلی کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف بالکل درست بیٹھتی ہے۔ کیونکہ ہماری جمہوریت ہمیشہ سے ہی دراصل جمہوری غیرت سے عاری نظام کے مترادف رہی ہے۔ یعنی ہمارے ہاں ایک ہجوم ہی کی حکومت ہے جس میں سبھی غیر جمہوری طبقات شریک ہیں۔ ان طبقات کو جمع کرنے سے ایک ایسا گروہ متشکل ہوتا ہے اور ایک ایسا مخصوص طبقہ وجود میں آتا جو پچھلی کئی دہائیوں سے عوام کو بیوقوف بنا کر حکمرانی میں مصروف ہے۔ ہمارے ہاں ابراہم لنکن کی تعریف اس لئے درست نہیں آتی کیونکہ جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں۔ چاہے عام انتخابات ہوں یا ضمنی یا پھر بلدیاتی، ہر الیکشن کے بعد اس کی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ یہی حال مئی 2013اور پھر 2018 کے عام انتخابات پھر ضمنی انتخابات، بلدیاتی انتخابات، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی ہوا یعنی جب عوام کے ووٹ کا استعمال ہی درست طرح سے نہ ہو تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے اور اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ ان دونوں انتخابات کے نتائج کے بعد حکومتیں عوامی نہیں بنیں کیونکہ کوئی نیا چہرہ اسمبلی میں نہیں آیا۔ وہی پرانے چہرے منتخب ہوکر اسمبلیوں میں حلف لیتے ہیں اور جھوٹے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی جمہوریت کی۔ کیا ایسی جمہوریت کی جس میں مثبت صحافت مشکل ہو جائے جس میں صحافیوں کو زدو کوب کیا جائے، حتیٰ کہ چند ایک کو قتل کر دیا جائے اور قاتل بھی نہ مل سکیں، جس میں سیاسی مخالفین کو جھوٹے سچے مقدمات میں پھنسا کر انتقام لیا جائے، جس میں سرکاری وسائل اور اختیار کو شیر مادر سمجھ لیا جائے، جس میں طاقت ور حلقوں سے کالیں آئیں کہ فلاں کو ووٹ دو اور فلاں کو چھوڑ دو، جس میں ایک سابقہ آرمی چیف یہ اقرار کر لے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کی بجائے حکومتی جوڑ توڑ میں مصروف رہا ہے، جس میں ایک سابق وزیر اعظم یہ اقرار کر لے کہ اصل حکومت تو سابق آرمی چیف کی تھی وہ تو محض مکے کھانے والا تھیلا تھا۔ جس میں ایک وزیر اعظم یہ بھی اقرار کر لے کہ اس نے اپنی گھڑی کی فروخت سے حاصل شدہ آمدن اپنے انتخابی گوشواروں میں اس لئے ظاہر نہ کی تھی کیونکہ اس آمدن سے اس نے اپنے محل کو جانے والی سڑک بنوا دی تھی اور یہ بات بھی سچ ثابت نہ کر سکے اور اس کے خلاف عدالتوں میں سے ریلیف کی خبریں آئیں۔ جس میں عدالتوں کے جج عدلیہ کے جج کم اور کسی سیاسی جماعت کے کارکن زیادہ نظر ائیں۔ جس میں 284معصوم جانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا دیا جائے لیکن معاملہ مذمتی بیانات دے کر رفع دفع کر دیا جائے۔ ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے 700سے زائد بچے اغوا ہو جائیں۔ ایک ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے اگر کسی وزیر، لیڈر یا کسی بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیت پر الزامات لگ جائیں اور وہ غلطی سے ثابت بھی ہوجائیں تو بھی انہیں کوئی ٹس سے مس نہ کر سکے۔ ایسی جمہوریت جس میں جو جتنا زیادہ بدعنوان ہو وہ اتنا ہی زیادہ معزز، باعزت اور محب وطن ہو۔ ایسی جمہوریت جس میں عوام کے منتخب نمائندے خود بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے ہوں اور دیگر کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا مشورہ اور جھوٹی ترغیب دیتے ہوں۔ ایسی جمہوری حکومت جس کے بنائے ہوئے ہسپتال اور سکولوں کے متعلق وہ ٹی وی ٹاک شوز میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہوں اور خود وہاں سے نہ تو علاج کرواتے ہوں اور نہ ہی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں داخل کرواتے ہوں۔ القصہ مئی 2013اور بعد ازاں 2018میں ہونے والے الیکشن سے لے کر اب تک عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ البتہ اول الذکر حکومت میں پی ٹی آئی کے استعفوں اور پھر ایم کیو ایم کے استعفوں اور پھر پانامہ لیکس کے مسئلے پر خود کو اور قوم کو خوب مصروف رکھا گیا۔ یہاں ہر پارٹی ہر مسئلے کے لئے اپنے اپنے مطالبات پیش کرتی ہے اور کچھ عرصے مطالبات مطالبات کھیلنے کے بعد کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایک ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے مسئلی کا خوش کن حل ڈھونڈ لیا جاتا ہے جیسا کہ اب عمران خان کی طرف سے مذاکرات اور مل جل کر مسائل حل کرنے کا بیان سامنے آیا ہے۔ یقیناً اب مسئلہ حل بھی ہو جائے گا۔ لیکن ان سیاسی جماعتوں کے ان مطالبات کے منظور نہ ہونے کے عرصہ کے درمیان غریب پستا رہے، خود سوزی کرے، غربت سے تنگ آکر گردے بیچنے پر مجبور ہو جائے یا پھر اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ اس حکمران طبقے کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ان حالات میں آسکر وائلڈ کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف کہ ’’ عوام کے ڈنڈے کو عوام کے لئے عوام کی پیٹھ پر توڑنا‘‘ بالکل درست نظر آتی ہے کہ جتنی محنت ہمارا حکمران طبقہ بظاہر جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے کرتا ہے اگر اتنی محنت وہ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اور ان کا ترجمان بن کر ان کی آواز اسمبلی فلور تک پہنچانے میں صرف کرے تو یہی عوام ان حکمرانوں کے قدم سے قدم ملاکر پاکستان کی خوشحالی اور مضبوطی کے لئے کام کرتے نظر آئیں اور ملک چند سالوں میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے۔ لیکن یہ کام کرے گا کون یہ حکمران طبقہ؟ نہیں ان سے تو موجودہ حالات میں اس کی امید نہ رکھی جائے کیونکہ ان کے اپنے مسائل بھی تو چل رہے ہیں انہیں تو ابھی جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے. دوسرے لفظوں میں اپنی حکومت کو مضبوط کرنا ہے چاہے اس منزل کے حصول کے لئے آئین و قانون کو قتل کرنا پڑے۔ ججوں کے خلاف ریفرنس لانے پڑیں یا پھر عدالتوں پر حملے کرنے پڑیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button