تازہ ترینخبریںپاکستان

مختصر اور تفصیلی فیصلے پر قائم ہوں، از خود نوٹس لینے کا اختیار اندرونی معاملہ ہے، جسٹس جمال مندوخیل

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’مختصر اور تفصیلی فیصلے پر قائم ہوں، از خود نوٹس لینے کا اختیار اندرونی معاملہ ہے‘۔

پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل ہے۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آج پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت مکمل کرکے حتمی فیصلہ سنادیا جائے گا۔

سماعت کے آغاز پر پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ ’درخواست میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی ہے‘۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟‘، اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’الیکشن کمیشن آرڈر کے بغیر کیسے عمل کررہا ہے، 4 ججز میں سے 2 میرے بھی سینیئر ہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’چلیں آپ کی وضاحت آگئی ہے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’مجھے ابھی بات کرنی ہے‘، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنائی جائے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’فل کورٹ کیوں؟ وہی 7 ججز بینچ میں بیٹھنے چاہئیں‘، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’فل کورٹ وقت کی ضرورت ہے، پہلے طے کرلیں کہ فیصلہ 4/ 3 کا تھا یا 3/2 کا تھا، ساری قوم ابہام میں ہے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟‘

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آ گئے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟’، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ’میں اپنی گذارشات پیش کروں گا، الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدر مملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی‘۔

سجیل سواتی نے مزید کہا کہ ’تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردیں، آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے، انتخابات کےلیے سازگار ماحول کا بھی آئین میں ذکر ہے، آرٹیکل 224 کےتحت الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے‘۔

دوران سماعت پیپلزپارٹی کے وکیل نے کہا کہ ’ہم نے فریق بننے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم الیکشن کمیشن کو سن کر پھر فیصلہ کریں گے‘۔

اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ’عدالت مجھے بھی سنے‘۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’کل کے ریمارکس پر وضاحت کرنی ہے، میں نے جو مختصر اور تفصیلی فیصلہ دیا اس پر قائم ہوں، از خود نوٹس لینے کا اختیار کس کا ہے یہ اندرونی معاملہ ہے، آرڈر آف دی کورٹ 4 ججز پر مشتمل فیصلہ تھا، آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس نے جاری نہیں کیا، سوال یہ بھی ہے کہ جب چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلہ نہیں دیا تو پھر الیکشن کمیشن اور صدر نے مشاور کے بعد شیڈول جاری کیا‘۔

حکومتی جماعتوں کی فریق بننے کی درخواست وصول

سماعت کے آغاز سے قبل سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے انتخابات ملتوی کیس میں فریق بننے کی درخواست وصول کرلی۔

قبل ازیں رجسٹرار آفس نے تینوں سیاسی جماعتوں کی فریق بننے کی درخواست وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے مذکورہ درخواست دوران سماعت عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

خیال رہے کہ انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے فریق بننے کا فیصلہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت سے قبل کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button