ColumnImtiaz Aasi

لاقانونیت اور تضحیک .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

لاقانونیت اور انسانیت کی تضحیک کے مظاہر موجودہ حکومت کے دور میں دیکھے جا رہے ہیں کبھی پہلے نہیں دیکھے تھے۔جیلوں میں داخل ہوں تو سب سے پہلے دیواروں پر لکھی گئی جس تحریر پر نظر پڑتی ہے’’ نفرت جرم سے ہے انسان سے نہیں‘‘لیکن آج کے دور میں نفرت انسان سے کی جارہی ہے جرم سے نہیں ۔اسلام اور انگریزی قانون میں قتل کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے جس کی سزا موت یا عمر قید ہے ۔ جب کوئی قتل جیسے سنگین جرم میں جیل چلاجائے اگلے روز اس کے لواحقین ملاقات کے لیے آجاتے ہیں جنہیں جیل ملازمین بخوشی ملاقاتی شیڈ تک لے جاتے ہیں ۔ قتل کے ساتھ دہشت گردی کی دفعات لگی ہوں تو بھی ملزمان کی ملاقات کرائی جاتی ہے۔ تعجب ہے زمان پارک میں پولیس آپریشن کے دوران ہنگامہ آرائی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں جن پی ٹی آئی ورکرز اور بے گناہ لوگوں کو جیلوں میں بھیجا گیا ہے ان کی اپنے لواحقین سے ملاقات پر پابندی ہے۔لاقانونیت کی انتہا یہ ہے کہ گرفتار ہونے والے لوگوں کو پنجاب کی مختلف جیلوں میں بھیجاگیاہے حالانکہ جیل مینوئل اس سلسلے میں بڑا واضح ہے جس میں قیدیوں کو اپنے آبائی اضلاع کی قریب ترین جیلوں میں رکھنے کو کہا گیا ہے۔ عام طور جیل حکام حوالاتیوں کو دوسری جیلوں میں اس لیے بھی نہیں بھیجتے انہیں ہر پندرہ روز بعد عدالتوں میں پیشی کے لیے لانا پڑتا ہے۔اگر کوئی حوالاتی لڑائی جھگڑے میں ملوث ہو تو حفظ ماتقدم کے طور پرانہیں قریبی جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ون یونٹ کے زمانے میں پنجاب سے قیدیوں کو دوسرے صوبوں کی جیلوں میں ضرور بھیجا جاتا تھا ون یونٹ کا خاتمہ ہوئے عشرے ہو چکے ہیں اس کے باوجود حکومت نے سیاسی رہنمائوں کوبلوچستان کی جیلوں میں بھیج کر ون یونٹ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے چودھری ظہور الٰہی کو بھینس چوری کے الزام میں مچھ جیل بھیجا تھا۔ بھٹو نے اس وقت کے گورنر بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی مرحوم کو ظہور الٰہی کو قتل کرانے کی خواہش ظاہر کی تو نواب صاحب نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا وہ ہمارے مہمان ہیں۔ظلم کی انتہا یہ ہے بہت سے شہریوں کو پولیس نے شبہ میں گرفتار کرکے دہشت گردی کی دفعات لگا کر انہیں شناخت پیریڈ کے لیے نظر بند کر دیا ہے۔کئی رو ز گذرنے کے باوجود نہ تو پولیس نے ان کی شناخت پیریڈ کا بندوبست کیا ہے اور نہ نظر بند ملزمان کی ان کے لواحقین سے ملاقات کرائی جا رہی ہے جو لاقانونیت اور انسانیت کی تضحیک کی زندہ مثال ہے۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق کسی جرم کی پاداش میں جیل والوں کو حوالاتیوں کے ساتھ بیرکس میں رکھا جاتا ہے ۔کوئی پولیس ملازم جیل آجائے یا کوئی سیاسی رہنما جیل بھیجا جائے تو انہیں حفاظتی کے طور پر دیگر حوالاتیوں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے ۔یہ بات درست ہے پولیس ملازمین اور سیاسی رہنمائوں کو عام حوالاتیوں اور قیدیوں سے الگ تھلگ کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے ہو سکتا ہے جیل آنے والے پولیس ملازمین میں سے کسی نے جیل میں موجودہ کسی قیدی کی تفتیش کی ہو اور سیاسی رہنمائوں کی کسی قیدی یا حوالاتی سے مخاصمت ہو سکتی ہے لہٰذا انہیں دوسرے قیدیوں اور حوالاتیوں سے الگ رکھنے کی وجہ سمجھ آجاتی ہے۔عجیب تماشا ہے ایسے شہری جنہیں محض شک کی بنا پر جیلوں میں بھیجا گیا انہیں نظر بند کرکے ملاقات پر پابندی کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا ملک میں دو وزیراعظم ہوتے ہیں۔
دوسری طرف کوئی آج بھی جیلوں میں اچانک جا کر دیکھے جیل سپرنٹنڈنٹس کے آفس سے ملحقہ کانفرس رومز میں وی آئی پیز ملاقاتیوں کو ہجوم لگا رہتا ہے۔یہ وی آئی پیز کوئی سرکاری شخصیات نہیں ہوتیں بلکہ جیلوں حکام سے سب اچھا کرنے والے شہری ہوتے ہیں جو جیل کے احاطہ میں داخل ہوتے ہی سپرنٹنڈنٹس کے اردلی سے رابطہ کرکے کانفرنس رومز میں قیدیوں اور حوالاتیوں سے گھنٹوں ملاقات کرتے ہیں۔حکومت خواہ کسی جماعت کی ہو کسی حکومت نے جیلوں سے مبینہ کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ من پسند افسران اور ملازمین کو ان کی حسب منشاء تعیناتی کو یقینی بنایا ہے۔ پی ٹی آئی ورکرز اور ان کے ساتھ بے گناہ شہریوں کے لواحقین اپنے پیاروں سے ملاقات کے لیے دربدر ہیں ۔عجیب تماشا ہے جیل سپرنٹنڈنٹس سے عام شہری کو ملاقات کی اجازت نہیں ہوتی جب تک سپرنٹنڈنٹس کسی کو بلا نہیں بھیجتا کوئی اس سے ملاقات نہیںکرسکتا۔عام شہری چیف سیکرٹری اور سیکرٹریوں سے دفتری اوقات میں مل سکتے ہیں مگر وہی شہری جب تک سپرنٹنڈنٹس کی طرف سے اجازت نامہ نہ آجائے کوئی ان سے مل نہیں سکتا۔حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے غریب اور بے سہار لوگ ملاقاتوں کے لیے ذلیل وخوار ہورہے ہیں سپرنٹنڈنٹس کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سیاست دان بڑے سیانے ہوتے ہیں وہ اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں جیل حکام سے تعلقات خوشگوار رکھتے ہیںانہیں پتا ہوتا ہے کسی نہ کسی موقع پر جیل جانا پڑے تو جیل حکام ان کی بہتر طریقہ سے دیکھ بھال کر سکیں۔ہم جیل حکام اور سیاست دانوں کے تعلقات پر معترض نہیں ہیں ۔یہ بھی نہیں ہونا چاہیے، بے گناہوں کو پولیس پکڑ کر شناخت پیریڈ کے لیے بھیج دے تو ان کے لواحقین سے ملاقات پر پابندی عائد کر دی جائے ۔آج کے دور میں جیل حکام کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کو بھی چاہیے وہ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کرنے میں تامل نہیں کرتے جانے جیل افسران کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرانے سے کیوں گریزاں ہوتے ہیں۔
ملک میں انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں جیلوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اعلیٰ عدلیہ کو بھی نوٹس لینا چاہیے۔ بے گناہ شہریوں کو جیلوں میں ڈال کر ملاقات پر پابندی لگانا لاقانونیت نہیں تو اور کیاہے۔نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بے گناہ نظربند شہریوں کی رہائی کے لیے جلد اقدامات کرنے چاہئیں ۔جیلوں میں سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کی تعیناتی کو میرٹ پر یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ صرف سفارشیوں کو من پسند جیلوں میں نہ لگایا جائے اس مقصد کے لیے میرٹ کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button