Uncategorizedانتخاباتتازہ ترینخبریں

انتخابات ملتوی کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری

سپریم کورٹ نے انتخابات ملتوی کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ نے گورنرز کو بھی بذریعہ چیف سیکریٹری نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بینچ کا حصہ تھے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔

تحریکِ انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی 3 بار توہین کی گئی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کا شیڈول کب جاری ہوا تھا؟

تحریکِ انصاف کےوکیل بیرسٹر علی ظفرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن شیڈول 8 مارچ کو جاری کیا گیا تھا، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، گورنر کے پی نے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کی تاریخ نہیں دی، صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کی تاریخ دی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 90 دن کی قریب ترین مدت میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا تھا، اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے بہت بعد انتخابات کی تاریخ دے کربھی توہینِ عدالت کی گئی، لیکشن کمیشن نے آئین کو یا تو تبدیل یا پھر معطل کر دیا ہے، وزارتِ داخلہ و دفاع نے سیکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے انکار کیا ہے، آئین انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہوں گے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے پی ٹی آئی کے وکیل سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عمل درآمد کرائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کرانا ہائی کورٹ کا کام ہے۔

وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، معاملہ صرف عدالت کے حکم پر عمل کا نہیں، 2 صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر چکی ہے، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی موجود ہے۔

جسٹس منیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے سوال کیا کہ آپ کس عدالتی حکم پر عمل درآمد چاہتے ہیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں یکم مارچ کے حکم نامے کی بات کر رہا ہوں جس میں 90 دن میں انتخابات کا حکم ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یکم مارچ کا حکم عدالتی حکم ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ میرے معزز ساتھی دستخط شدہ عدالتی فیصلے کا حوالہ دینا چاہ رہے ہیں، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدرِ مملکت کی دی گئی تاریخ بدل سکتا ہے؟ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو بدلا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدر کی دی گئی تاریخ بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے انتخابات ملتوی کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ گورنرز کو بھی بذریعہ چیف سیکریٹری نوٹس جاری کیا۔

عدالتِ عظمیٰ نے سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button