Editorial

ہمارے اسلاف کی قربانیاں اور ہم !

 

23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان پیش کی گئی۔ قرارداد پاکستان کی بنیاد پر ہی مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے الگ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کی انتھک کوشش کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ یوں ہر سال ہم 23 مارچ کو قرار داد پاکستان کا دن مناتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں دو قومی نظریہ وضاحت سے بیان کیا۔انہوں نے الگ مسلم مملکت کا تصور پیش کیا اور مسلم امہ کے اتحاد اور عزم پر بھی زور دیا۔ شاعر مشرق نے اسلام کو لوگوں کو جو ڑنے والی طاقت قرار دیا ،کیونکہ دین اسلام نے لوگوں کو اخلاقیات اور سیاسی شناخت فراہم کی ہے، لہٰذا الگ ملک کا مطالبہ کرنا مسلمانوں کا بنیادی حق تھا تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مذہب، تہذیب و تمدن اور ایمان کے ساتھ زندگی گزارسکیںیوں شاعر مشرق نے بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کی بنیاد رکھی اور مسلمانوں کے لیے الگ ملک کے حصول کی راہ متعین ہو گئی۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور اور اُن کے رفقا نے جمہوری اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی بنیاد رکھی اور آج ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں۔ مملکتِ خدا داد پاکستان، مسلمانان برصغیر کی عظیم جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا ۔ ہم مختلف قومی ایام پر اپنے اسلاف کی بے لوث قربانیوں اور جذبہ حب الوطنی کا اعتراف تو کرتے ہیں مگر اُن جیسا بن کر، اُن کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آزادی کے بعد پاکستانیوں کے پاس حُب الوطنی اور جذبے کے سوا کچھ نہیں تھا مگر اِس کے باوجود نیک نیتی اور لگن سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا، افرادی قوت اور قدرتی وسائل کو درست طریقے سے استعمال کرکے اُن مسائل کو دور کیا جو ہجرت کے وقت پوری قوم کے سامنے آچکے تھے۔ بابائے قوم کی رحلت کے بعد بھی ہمیں وہ قیادت میسر تھی جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر شروع ہونے والی جدوجہد میں صف اول پر تھی لہٰذا قومی سطح پر لگن کے مظاہر ہوئے اور ہم خود مختاری کے تحفظ کے قابل ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بہترین اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور ان کے حمایتی جواہرلال نہرو کو شکست دی، تحریک آزادی کے ہر واقعہ میں سیکھنے کے لیے سبق موجود ہے، لیکن یہ سبق ہر اُس فرد کے لیے بے اثر ہے، جس کے دل میں ملک و قوم کے لیے تڑپ نہیں ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے سوا کسی قومی مفاد کو ترجیح نہیں دیتا۔وہی دور تھا جب ہم نے آزادی ملنے کے بعد ملک و قوم کے لیے دن رات ایک کیا، اُن کی ترجیح، اُن کا مفاد اور سوچ کا محور صرف اور صرف اپنے حصے کا کام مکمل کرنا تھا جو وہ بہرصورت مکمل کرنا چاہتے تھے، مگر بعد میں آنے والوں نے قیام پاکستان کے لیے طویل اور پُرامن جدوجہد اور لاکھوں قربانیوںکو مدنظر رکھ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے اپنے مفادات کا ایسا کھیل شروع کیا جو آج تک کھیلا جارہا ہے، مشرقی اور مغربی پاکستان تب پاکستان بنے تھے جب قائد اعظمؒ اور اُن کے ساتھی ہمارے اسلاف نہتے تھے مگر جب ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے تو ہم نے قائدؒ کے پاکستان کو دولخت کردیا، قائدؒ کا پاکستان ، مشرقی اور مغربی پاکستان کے نام سے دو لخت ہوچکا تھا لہٰذا ہم نے سال میں ایک دن مقرر کرلیا تاکہ ہم اِس سانحے کو مناسکیں جس طرح ہم 23 مارچ کو قرارداد پاکستان کے نام سے تو مناتے ہیں مگر ہمیں اِس کے اندر موجود سبق کا قطعی اتا پتا نہیں، اسی طرح ہم سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے نام سے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن تو قراردیتے ہیں مگر اِس سے حاصل سبق کو زبان پر نہیں لاتے یا ہمیں پتا ہی نہیں کہ ملک کیسے دودلخت ہوا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم ؒ اور ہمارے بزرگان کو آزادی کے حصول کے لیے جو مشکلات درپیش تھیں، مسلمانوں میں ایک قوم کا تصور تک موجود نہ تھا، بالمقابل انگریز راج اورشاطر ہندو قیادت تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کو کامیابی سے نوازا آج ویسی مشکلات ہیں اور نہ ہی ویسے شاطر اور مکار مدمقابل ہیں مگر آج قوم گروہوں اور نظریات میں تقسیم ہوچکی ہے کیونکہ ایسا کیاگیا ہے، سیاسی قیادت میں ہمارے اسلاف جیسی بصیرت ہوتی، ملک و قوم کے لیے مرمٹنے کا جذبہ ہوتا اور اپنا مال و زر قربان کرنے کی ہمت ہوتی تو آج ہم اِن حالات سے دوچار نہ ہوتے۔ تب ہم دو قومی نظریہ کی بنیاد پر متحد تھے آج وہ دو قومی نظریہ صرف کتابوں میں موجود ہے جن پر دھول جم چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک آگے جانے کی بجائے پیچھے جارہا ہے، قرضوں میں بال بال جکڑا ہواہے، جابجا نظریات جنم لے چکے ہیں، سبھی دعوے دار ہیں کہ اُن کا نظریہ ہی دراصل حقیقی نظریہ ہے ، مغرب کی بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے، خطے میں سماجی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں ہم کہیں شامل نہیں، ہمارے آبائو اجداد نے اِس ارض وطن کے لیے کاروبار اور جائیدادیں قربان کردیں، مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عصمتیں ہمارے روشن مستقبل کے لیے قربان کردیں مگر آج ہم کج بحثی اور نظریاتی اُلجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں، ایسے افراد کی کمی نہیں جو سامنے والے کے وجود کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، آئین و قانون کی بجائے غصہ اور انتقام اہمیت اختیار کرچکا ہے، اجتماعی کی بجائے انفرادی مفادات پر قومیت کا لبادہ ڈال کر قوم کوگمراہ اور ملک کو ہر لحاظ سے کمزور کیا جارہا ہے۔ ہم کب اپنے اسلاف کی ترجیحات کو اپنی ترجیحات بنائیں گے، ہم کب اُن کی پیروی کرتے ہوئے قربانیاں پیش کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، کب ہماری ترجیح ملک و قوم ہوگی، قیادت تو قوم کے لیے مثال بنتی ہے لہٰذا جو کچھ عامۃ الناس کررہے ہیں وہ قیادت کی تقلید میں ہی کررہے ہیں خواہ وہ برا ہے یا اچھا۔ انجام گلستان ہمارے اعمال سے مشروط ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button