ColumnNasir Naqvi

پاکستانی بحران مقامی نہیں؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

پاکستان کا معاشی، سیاسی اور آئینی بحران بظاہر موجودہ اور سابق حکمرانوں کا پیدا کردہ دکھائی دے رہا ہے۔ دونوں حکمران ایک دوسرے پر جائز ناجائز الزامات تھوپ کر فتح کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ ملک و ملت کی بھلائی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن رکاوٹیں ایسی ہیں کہ نہ سابق وزیراعظم نیا پاکستان کا نعرہ لگا کر کچھ کر سکے اور نہ ہی اتحادی جماعتیں اقتدار میں آ کر کچھ کر سکیں۔ دونو ں کے دعوے دھرے رہ گئے لیکن خواہش یہی ہے کہ عوام ووٹ کے ذریعے ان کے ہاتھ مضبوط کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ عوام کو ریلیف مل رہا ہے اور نہ ہی معاشی بحران ختم ہو رہا ہے بلکہ دونوں جانب سے الزامات کی جنگ تیز ہو گئی۔ اب جس انداز میں سیاستدان دست و گریباں ہیں۔ اس میں اخلاقیات کا جنازہ بھی نکل گیا۔ جس کے منہ میں جو آ رہا ہے وہ کہہ رہا ہے، کسی کو اندازہ نہیں کہ یہ سب غیر سیاسی اور غیراخلاقی انداز مستقبل کے لیے کیا مشکلات پیدا کریں گے؟ اس روئیے کی کس قدر قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یہ ہاتھ سے لگائی ’’گرہ‘‘ ضرورت پڑنے پر دانتوں سے بھی نہیں کھلیں گی پھر پچھتانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، اگر ایسے ہی معاملات ہیں تو پھر موجودہ اور سابق حکمرانوں کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی، ایک دلچسپ بات اور بھی ہے کہ دونوں حکمران زور دے رہے ہیں، غلط منصوبہ بندی پاکستانی بحران کی اصل وجہ یہ ہے عمرانی حکومت پر الزام ہے کہ ناتجربہ کاری اور ناقص منصوبہ بندی نے پاکستانی استحکام کو نقصان پہنچایا۔ عمران کہتے ہیں کہ مجھے کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ اقتدار ہمارا تھا طاقت کسی اور کسی کے پاس تھی، جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ عمران نااہل، نالائق تھے انہیں امپورٹڈ وزراء دئیے گئے انہوں نے کرامات دکھائیں اور عمران خاں منہ تکتے رہ گئے۔ میں نے اپنی ’’جمع تفریق‘‘ کے لیے مختلف ماہرین اقتصادیات اور آئینی و سیاسی رہنمائوں سے ’’گپ شپ‘‘ کی ،تو نتیجہ جو مجھے سمجھ آیا کہ ’’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘ ایک غیر سیاسی مبصر کا کہنا تھا کہ ’’عالمی مافیا‘‘ ترقی پذیر ممالک کو اپنے مفادات میں زیرنگیں رکھنے کے لیے پہلے انہیں مختلف بہانوں سے مسائل کے حل کے لیے امداد کا راستہ دکھاتا ہے پھر دبائو ڈال کر انہیں بلیک میل کرتا ہے اور جب چھوٹے، کم ترقی یافتہ ممالک اس صورت حال سے نکلنے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ’’عالمی مافیا‘‘ راہ کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ مملکت پاکستان ابتدائی دور میں ہی دنیا کے سب سے بڑے رسہ گیر ’’امریکہ بہادر‘‘ کے چنگل میں پھنس گئی تھی، جب پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خاں نے روس کا طے شدہ دورہ منسوخ کر کے امریکہ کا سفر کیا اور جونہی امریکی چال لیاقت علی خان کو سمجھ آئی اور انہوں نے ’’مکا‘‘ لہرایا، انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ جلسہ گاہ میں قتل ہوا، سعد اکبر کو ٹھکانے لگا کر عوامی غضب سے بچا گیا ، بعد میں یہ راز کھلا کہ اصلی قاتل کوئی اور تھا۔ پھر حکومت سے ہی سعد اکبر اوراور بچوں کی پرورش کے لیے برسوں وظیفہ دیا گیا۔ دورِ عمرانی میں خان اعظم نے صدر ٹرمپ کی دوستی، محبت اور پیار میں بہت کچھ ایسا کیا کہ اپنے پرانے آزمودہ دوست بھی پرائے ہو گئے۔ پھر وقت بدلا، نہ ٹرمپ کا اقتدار بچا اور نہ ہی عمران خان اپنی حکومت قائم رکھ سکے۔ قوم کو بتایا گیا کہ امریکہ بہادر دورہ روس سے ناراض ہو کر ان کے اقتدار کا دشمن بن گیا۔ سازش کی اور پاکستانی سیاستدانوں کی سہولت کاری سے حکومت گرا دی، موجودہ حکومت کا رجحان آزمودہ دوست چین کی طرف ہوا تو امریکہ بہادر کا منصوبہ خاک ہوتا محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا آئی ایم ایف کے ذریعے ہمیں لگامیں ڈال دی گئیں، معاشی بحران دنیا بھر میں ہے لیکن اس کی اور ہماری وجوہات مختلف ہیں۔ ماضی اور حال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی فکر لاحق ہوئی تو ’’سی پیک‘‘ اہم نہیں، انتہائی اہمیت کا حامل دکھائی دیا۔ حکومت اعتماد کی بحالی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے لیکن آئی ایم ایف اس بداعتمادی کی فضاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نت نئی شرائط لاگو کر رہا ہے۔ حکومت آئی تھی عوامی ریلیف کا خواب دکھا کر مگر عملی کارروائی میں سخت فیصلوں سے مشکلات بڑھا دیں۔ لوگ پریشان ہیں، آمدنی کم، اخراجات زیادہ اس لیے کہ مہنگائی کا ’’جن‘‘ تمام تر دعوئوں کے باوجود بوتل میں بند نہیں کیا جا سکا۔ دوست ممالک اس مشکل میں مدد کے خواہاں ہیں پھر بھی آئی ایم ایف کی شرائط آڑے آ رہی ہیں، ہماری عدالتوں کی طرح تاریخ پر تاریخ والا معاملہ ہے، مسائل بڑھ رہے ہیں وسائل میں کمی فکر کا باعث ہے ،تاہم نتیجہ نہیں نکل پا رہا۔
پاکستان اور ایشیائی ممالک کے لیے ’’سی پیک‘‘ کسی شاہراہ ترقی و خوشحالی کی نوید تھی لیکن اچانک عمرانی حکومت نے آزمودہ دوست عوامی جمہوریہ چین سے سردمہری کا مظاہرہ کیا اور ’’سی پیک‘‘ کا کام رک گیا۔ لیکن میں یہ بات ماننے کو ہرگز تیار نہیں کہ ایسا صرف عمران خاں کی مرضی سے ہوا ہے کیونکہ ’’سی پیک‘‘ اور چینی اہلکاروں کی حفاظتی ضمانت تو افواج پاکستان کے ذمہ داروں نے دی تھی لہٰذا حکومت یکطرفہ فیصلہ کیسے کر سکتی تھی؟ یقینا ایسے میں سابق سپہ سالار جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر بھی الزام عائد ہو گا وہ اپنی غلطیوں کو جاتے جاتے تسلیم کر چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنی ان کرامات پر قوم سے معافی نہیں مانگی، انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کام بھی ضرور کرنا چاہیے تھا کیونکہ ہر دور میں صرف سیاستدانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے سے غلط فہمیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ دورِ حاضر کی ایک بڑی حقیقت ہے کہ امن اور مسائل کے حل میں جنگ کبھی بھی مثبت کردار ادا نہیں کرتی۔ ’’یو کرائن‘‘ کی موجودہ جنگ نے تو دنیا کا توازن بگاڑ دیا ہے لیکن اسلحہ و بارود کا کاروبار جاری ہے۔ جانی و مالی بھاری نقصان بھی کسی سے پوشیدہ نہیں پھر بھی مذاکرات کی میز پر ابھی تک ’’انتظار فرمائیے‘‘ کا بورڈ ہی دکھائی دے رہا، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اب دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ’’معیشت‘‘ ہے اس میدان میں عوامی جمہوریہ چین کا طوطی بول رہا ہے۔ امریکہ بہادر بھی اس کے مقروض ہیں لیکن مستقبل کی فتوحات کے لیے وہ پُرامید ہے، ’’افغانستان‘‘ سے بڑی مشکل سے جان چھوٹی ہے۔ پھر بھی وہاں کی یادیں اور مفادات ابھی بھی اس کے دماغ میں رقصاں ہیں۔ ’’عالمی مافیا‘‘ ترقی پذیر ممالک کو اپنی منصوبہ بندی میں الجھا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کاماسٹر ہے۔ ہمارا بحران بھی اسی کا مرہونِ منت ہے اس کام کے لیے پینٹاگون، سی آئی اے ہی نہیں امریکہ بہادر کی سرپرستی اور مشاورت سے چلنے والے عالمی مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں جو سنہرے خواب دکھا کر ضرورت مند ممالک کو غلامی کا طوق پہنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہمارے معاملے میں بھی اس کے سہولت کار ہماری صفوں میں ہی ہیں جو اپنے مفادات میں ہمیں کہانی کچھ سناتے ہیں اور ڈیوٹی اغیار کی دیتے ہیں۔ ہر دور میں بیرون ملک سے عبدالحفیظ شیخ ، ظفر مرزا، شہزاد اکبر جیسے ہی نہیں سابق وزرائے اعظم شوکت عزیز اور معین قریشی جیسے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور پھر وہ عالمی ایجنڈے پر ہماری خدمت کر کے واپس اپنی ملازمت پر چلے جاتے ہیں اور بعد میں گریبان ہم ایک دوسرے کے پکڑتے ہیں، مقدمات کے ساتھ قید و بند کے حکم نامے جاری ہوتے ہیں لیکن رزلٹ کچھ نہیں نکلتا۔
ابھی وقت ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو مستحکم کیا جائے، سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنے اندازِ فکر کو بدلیں، آج جو کچھ ہو رہا ہے اس سے سبق سیکھیں ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ قوم سخت فیصلے برداشت کر لے گی، دو وقت کی روٹی نہیں ملے گی تو ایک وقت کی روٹی کھا کر گزارا کر لیں گے لیکن اشرافیہ کے بس کی بات نہیں کہ وہ بدامنی میں زندہ رہ سکیں گے، حالات جس طرح بگاڑے گئے دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹا گیا، غلط منصوبہ بندیوں سے ’’معاشی بحران‘‘ پیدا کیا گیا اور پاکستان کی بے توقیری کی منصوبہ بندی غیر ملکی ایجنڈے کے مطابق کی گئی، موجودہ نازک حالت میںعدالت، سول عسکری اسٹیبلشمنٹ اور فورسز سب کو قومی مشترکہ مفادات میں آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے سخت ترین فیصلے کریں، الزامات کی بلا امتیاز تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ،وہ نشانِ عبرت بنیں اور مستقبل میں کوئی ایسی مثال دوبارہ نہ بن سکے کیونکہ موجودہ صورت حال میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت بے بس، سوشل میڈیا عروج پر سچی جھوٹی خبریں پھیلا کر معاشرے کی تباہی کا باعث بن چکا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ہمارا اور ہماری قوم کا مستقبل کیا ہے؟ اور 1973ء کے آئین و پارلیمنٹ کی موجودگی میں پورے ملکی نظام کو یرغمال کس نے بنایا؟ قوم یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس ملک کو گروی کس نے رکھا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button