ColumnImtiaz Aasi

تبدیلی کی لہر ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

تبدیلی کی لہر

ایک زمانہ تھا جب حالات حاضرہ سے متعلق لوگوں کو آگاہی سرکاری ٹیلی ویژن ،ریڈیو اور اخبارات سے ہوا کرتی تھی۔کسی حادثہ کی صورت میں خبروں کا عوام تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگتا تھا۔ عوام کو صبح سویرے اخبارات کا انتظار رہتا تھا یا وہ بی بی سی اردو سروس کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی حالات سے آگاہی حاصل کرتے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے ذرائع محدود ہونے سے سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن اور لوٹ مار بارے عوام کو بہت کم معلومات ملتی تھیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز متعارف کرانے اور سوشل میڈیاکی بڑھتی ہوئی یلغار سے لوگوں کولمحہ بہ لمحہ خبروں سے آگاہی چند منٹوں میں ہونے لگی ہے۔ پرائیویٹ چینلز کے درمیان مقابلے اور سوشل میڈیا سے بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی خبر چند سیکنڈ میں پوری دنیا میں چلی جاتی ہے۔ہم دنیا کے دیگر ملکوں کی مثال سامنے رکھیں تو آگاہی ہوتی ہے بہت سے ملکوں میں ہر چالیس پچاس سال بعد تبدیلی آرہی ہے ۔
جمہوریہ چین جو کبھی جاپان کا غلام تھا پچاس کی دہائی میں آزادی حاصل کرنے کے بعد کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔چین سے دو سال پہلے ہم نے آزادی حاصل کی۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے تبدیلی لا کرعوام کو بااعتماد بنایا۔ گویا ہر تیس سے چالیس سال کے عرصہ بعد کہیں نہ کہیں تبدیلی کی لہر ضرور چلتی ہے۔مملکت خداداد کا موجودہ نظام اب آخری ہچکولے کھا رہا ہے وائٹ کالر کا نظام اختتام پذیر ہونے کو ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے جب کسی ملک کے نظام میں تبدیلی کی لہر چل پڑے اسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتا اور نہ اسے تشد د سے دبایا جا سکتا ہے۔کچھ اسی طرح کی صورت حال کا شکار ہمارا ملک بھی ہے ۔عمران خان نے ملک کے نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے میں تبدیلی کا شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دو سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال عوام ایک عرصہ سے تبدیلی کے منتظر تھے۔عوام اور نوجوان نسل کو اس بات کا پوری طرح ادارک ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت کے مقابلے میں عمران خان صاف ستھرا سیاست دان ہے ۔مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف اپنی ہونہار بیٹی کووزیراعظم بنانے کے متمنی ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری اپنے اکلوتے چشم وچراغ بلاول بھٹو کو وزیراعظم کی مسند پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔لاہور میں زمان پارک میں واقع عمران خان کی رہائش گاہ میں پیش آنے والے سانحہ اور اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کے ساتھ عوام اور خصوصا نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کے بعد یہ کہنا غلط نہیںہوگا ملک میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔عشروں سے اقتدار پر قابض سیاست دانوں سے تنگ عوام اب بھی عمران خان کو مسیحا سمجھتے ہیں۔اسلام آباد سے لاہور واپسی کے بعد عمران خان کی رہائش پر نوجوانوں کی پہرہ داری اس امر کی عکاس ہے عوام اپنے محبوب لیڈر پر جانیں نچھاور کرنے سے گریز نہیںکرتے۔
سوشل میڈیا پر عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے بتایا لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے حکومت کو یہ حکم جاری کیا گیا تھا ایس پی عہدے کا کوئی پولیس افسر اور انسپکٹر عہدے کی کوئی خاتون پولیس افسر جاکر وارنٹ کی تعمیل یا اگر کوئی تفتیش کرنی ہو تو جا کر کرے لیکن اسلام آباد رونگی کے بعد سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ پر آپریشن کا آغاز سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے حکومت تحریک انصاف کے چیئرمین کی مقبولیت سے بوکھلائٹ کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض ذرائع نے انکشاف کیا ہے وزیراعظم کو ایک خصوصی اجلاس میں یہ بات بااور کرائی گئی ہے ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم کو دونوں صوبوں میں شکست نوشتہ دیوار ہے۔شاید انہی وجوہات کی بنا پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے ۔دراصل کھیل حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے حکومت خواہ کتنے حربے استعمال کرے پی ڈی ایم کے لیے الیکشن سے راہ فرار ممکن نہیں ۔بعض حوالوں سے خبریں گردش کر رہی ہے حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگانے بارے سوچ بچار کر رہی ہے لیکن اسے اپنی ایک اتحادی جماعت کی طرف سے اس سلسلے میں مخالفت کا سامنا ہے۔یہ بھٹو کا زمانہ نہیں جب اس نے اے این پی پر پابندی لگا دی تھی تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی اور مقبول پارٹی ہے جسے کنارے پر لگانا کسی کے بس کی بات نہیں۔عوام کو آنسو گیس کے شیلوں اور جیلوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا سمجھ داروں کو بھی سمجھ آجانی چاہیے عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو اقتدار دینے کو تیار نہیںبلکہ وہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔بارہ جماعتی اتحاد کی حکومت سے امور مملکت سنبھالے نہیں جا رہے ہیں بس اقتدار جانے کی فکر لاحق ہے ۔گندم میں خود کفیل ہونے کے باوجود حکومت عوام کو کھلی مارکیٹ میں سستے داموں آٹے کی فراہمی میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔جو حکومت غریب عوام کو آٹے جیسی بنیادی ضرورت کے لئے لائنوں میں کھڑا کرے ایسی ناکام حکومت کو آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔پنجاب میں کاغذات نامزدگی وصول کرنے کے باوجود حکومت کی بھرپور کوشش ہے کسی طرح الیکشن کو موخر کیا جائے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے آگے حکومت کو سرتسلیم خم کرنے کے سوا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ محض امن وامان اور فنڈز کی عدم دستیابی کا بہانے سے الیکشن سے فرار ممکن نہیں ۔عدالت عظمیٰ کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کرنا آتا ہے ۔یہ آزاد عدلیہ ہی ہے جس کے سامنے سیاست دانوں کو سر تسلیم خم کرنا پڑے گا ورنہ مسلم لیگ نون ،جے یو آئی اور پیپلز پارٹی کو اقتدار کے مزے لینے کا اس سے اور کوئی اچھا موقع مل نہیں سکتا۔پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد سے ہمارے ملک بارے دوسرے ملکوں کو کیا پیغام ملے گا ۔جمہوریت کے نام نہاد علمبردار اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔یہ بات ضرور ہے حکومت الیکشن کمیشن سے ساز باز کرکے کسی طرح ضمنی الیکشن وقتی طور پر موخر کرا سکتی ہے جس کا نتیجہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button