
آزادی کی قیمت ۔۔ محمد مبشر انوار
محمد مبشر انوار
آزادی کی قیمت
کسی نے بہت خوب کہاتھا کہ پاکستان آزاد تو ہو چکا ہے لیکن پاکستانی ہنوز غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں،گذشتہ پچھتر سالہ تاریخ کو مد نظر رکھیں تو اس مقولے کی صداقت اور تلخی میں کوئی شبہ نہیں لگتا ۔ بابائے قوم کے فرمان کے مطابق کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں ،یہ حقیقت بھی پوری طرح اس قوم پر صادق آتی ہے کہ قیادت کی تن تنہا ذمہ داری کا بوجھ قائدنے اپنے کندھوں پر اٹھائے،برصغیر کے مسلمانوں کو وقت کی دو عیار اورمکار ترین قوموں سے آزادی دلائی لیکن انگریز کی پروردہ باقیات ہنوز عوام کو غلام رکھنے پر بضد ہیں۔قائد اعظم نے شبانہ روز انتھک محنت اور جدوجہد سے برصغیر کے مسلمانوں کو کلمہ کی بنیاد پر اکٹھا کیا اور ان کیلئے الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس جدوجہد میں عوام کو کتنی قربانیاں دینا پڑی،یہ سب اب تاریخ کا حصہ ہے۔ یہاں یہ امر برمحل ہے کہ اکثر مؤرخ یا دانشور یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ قائد اعظم کی جدوجہد ایک لبرل ،روشن خیال ملک کیلئے تھی،نہ کہ ایک تنگ نظر ریاست کا حصول ان کا مطمع نظر تھا۔ برکیف اس بحث کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں کہ قائد اعظم کے خطبات میں یہ واضح ہے کہ نئی ریاست کواسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ بننا تھا ،ایک ایسی تجربہ گاہ جس میں غیر مسلموں کے حقوق کی ضمانت بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق مہیا کی جانی تھی۔علاوہ ازیں ! ایک ایسے معاشرہ تشکیل دیا جانا تھا جہاں عدل و انصاف کی فراہمی یقینی ہوتی،صرف اس اصول کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اگر عدل و انصاف قائم ہو جائے ،قانون کی بالا دستی ہو جائے تو وہ معاشرہ نہ صرف امن کا گہوارہ بن جاتا ہے بلکہ اس معاشرے کی ترقی و خوشحالی از خود ایک یقینی امر ہو جاتاہے۔انصاف پسند معاشرے میں،کسی طاقتور کو کسی کمزور پر ظلم کرنے کی اجازت قطعی نہیں ہوتی اور کسی حقدار کا حق چھینا نہیں جا سکتا لیکن جیسے ہی یہ صفت معاشرے سے غائب ہوتی ہے،معاشرہ تنزلی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے ،جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہو جاتاہے۔ ایسے معاشروں میں غریب و بے بس عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی،اسی معاشرے کے عذاب سے بچنے کیلئے قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کی تحریک چلائی اور چشم فلک نے دیکھاکہ اس تحریک کے قائد نے کسی ایک بھی جگہ غیر قانونی اقدام نہیں اٹھایا،ہر قدم سوچ بچار اورباہم مشوروں سے کیا البتہ ایک حقیقت اور بھی اہم ترین نظر آتی ہے کہ جو قدم اٹھایا بعد ازاں اس کو صحیح ثابت بھی کیا۔یہ ایک طرف قائد کی فراست تھی کہ اپنے فیصلوں کو قانونی دائرے کے اندر رکھا تو دوسری طرف انگریز سرکار کا قانون کی بالا دستی پر نظم تھا کہ قائد پر کوئی جھوٹا یا انتقامی مقدمہ نہیں بنایا گیاجبکہ گمان غالب ہے کہ اگر قائد آج کے پاکستان میں ہوتے تو یقینا ان پر بعینہ ویسے ہی غداری کے مقدمے درج ہوتے جیسا کہ مادر ملت اوران کی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر قائم کئے گئے تھے۔
موجودہ دور کے حکمرانوں سے کچھ بھی بعید ہے کہ ہوس اقتدار اور اپنے انتقام میں وہ کسی بھی حد سے گذرنے کیلئے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں البتہ یہاں مراد حقیقی حکمرانوں سے ہے کہ جن کی مرضی کے بغیر بہرطور غداری و بغاوت کے مقدمات کسی صورت نہیں بن سکتے۔سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ جمہوری سوچ اور جمہوریت کی دعویدار پیپلز پارٹی رہی ہے لیکن افسوس کہ حکومت کے اتحادی ہوتے ہوئے،اپوزیشن لیڈر پر مسلسل اور بے تحاشہ انتقامی مقدمات کی بھرمار ہے لیکن پیپلز پارٹی خاموش تماشائی بنی نظرآتی ہے۔اس خاموشی کے پیچھے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے خود کو اس کھیل سے الگ کر رکھا ہے اور درون خانہ یہ خواہش پال رہی ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے اس دنگل میں ایک جماعت یا دونوں جماعتیں،خواہ عوامی حمایت یا خصوصی حمایت سے محروم ہوجائیں تا کہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں راستہ بن سکے اور وہ پنجاب میں دوبارہ اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو سکے۔ایسی خواہش رکھنا ایک فطری عمل ہے لیکن کیا اس خواہش کی تکمیل بھی ممکن ہے؟بالخصوص جب ملکی سیاست میں فاشزم کا ننگا ناچ ہو رہا ہو،انتقامی سیاست اپنے عروج پر نظر آ رہی ہو اور عمران خان کے خلاف ہر طاقتور اپنا حصہ بقدر جثہ بھرپور انداز میں پیش کر رہا ہو،پیپلز پارٹی کی خاموشی ایک طرف اس کی جمہوری سوچ پر سوالیہ نشان ہے تو دوسری طرف اس کے دعوے کی نفی ہے کہ وہ انتقامی یا محاذ آرائی کی سیاست نہیں کرتی۔ تسلیم کہ پیپلز پارٹی بطور اتحادی اس حکومت کا حصہ ہے لیکن زرداری کا ہی دعوی تھا کہ وہ عمران حکومت کو ہٹا کر شہباز شریف کو اپنا وزیراعظم بنائیں گے،اس لحاظ سے زرداری یا پیپلز پارٹی کا یہ کہنا کہ حکومت ن لیگ کی ہے اور تمام انتقامی سیاست ن لیگ کر رہی ہے،ہرگزقابل ستائش نہیں،یہاں پیپلزپارٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
عوامی آزادی کے حوالے سے یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں طاقتوروں نے کسی بھی مرحلے پر عوامی آزادی کو درخور اعتنا نہیں سمجھا بلکہ ہر وہ سیاسی و عوامی شخصیت،جس نے طاقتوروں کو للکارا ،اسے نشان عبرت بنانے سے گریز نہیں کیا گیا۔شیخ مجیب،ذوالفقار علی بھٹویا بے نظیر بھٹو(کسی حد تک)کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کیلئے ہر اقدام اٹھایا گیا،انہیں لولے لنگڑے اقتدار کے سمجھوتوں پر مجبور کیا گیا،یہی صورتحال میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ہوئی ۔ شیخ مجیب پر سیاسی و انتقامی مقدمات طاقتوروں کی جانب سے قائم کئے گئے،جو بزعم خود محب الوطن جبکہ باقی غدار اور باغی،جبکہ بھٹو پر ان کے ایک ساتھی کی طرف سے قتل کا مقمدہ درج کروایا گیا،جس کو بنیاد بنا کر جنرل ضیا نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیاجو آزاد عدلیہ کی موجودگی میں یا قانون کی بالا دستی ہوتے ہوئے کسی صورت ممکن نہ تھا ،جسے بعد ازاں عدلیہ کی تاریخ میں عدالتی قتل قرار دیا گیا۔ان قد آور شخصیات کی جرآت کا جرم دوسری دو شخصیات سے قدرے کم تر تھا لیکن اس کے باوجود بے نظیر کو فقط پنجاب میں انتخابی مہم چلانے پر زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے،جبکہ نواز شریف کسی بھی صورت جیل کی سلاخوں میں رہنے کو تیار نہیں۔ نواز شریف کا معاملہ بہرطور دیگر تین شخصیات سے کلیتا مختلف ہے کہ شیخ مجیب اور بھٹو پر کرپشن کے قطعا کوئی الزامات نہیں رہے جبکہ بے نظیر بلاواسطہ اس دلدل کا شکار ہو ئی،نواز شریف پر قائم کئے گئے مقدمات میں سے اکثریت کا تعلق ان کی بے پناہ دولت کے احتساب سے رہا ہے ماسوائے جنرل مشرف کے دور میں ان پر ہائی جیکنگ کا غلط مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔جن مقدمات پر نواز شریف کو سزا ہوئی،وہ تمام مالی بدعنوانیوں کے مقدمات رہے ہیں اور نواز شریف آج تک ان مقدمات میں اپنی صفائی و بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام رہے اور ہمیشہ بیرون ملک جانے کو ترجیح دی۔رہی بات سیاسی اور سیاست میں زندہ رہنے کی،تو اس حد تک یقینا انہوں نے بہت بلند و بانگ دعوے کئے لیکن ان دعوؤں کے حصول میں جو جدوجہد درکار تھی،وہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں میں ناپید رہی ہے اور عموما یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ چوری کھانے والے طوطے ہیں جو سب کچھ پلیٹ میں سجا سجایا کی خواہش رکھتے ہیں،جو ممکن نہیں۔
عمران خان کی حالیہ جدوجہد اس کی عملی مثال بنتی نظر آتی ہے کہ وہ عزم صمیم کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں،ان پر مقدمات کی بھرمار بھی ،ان کے عزم پر اثر انداز نہیں ہو رہی بلکہ عمران کے عزم کو مزید جلا بخش رہی ہے۔پاکستانی سیاسی تاریخ میں کسی ایک سیاسی قائد پر سو مقدمات کا قائم ہونا،ایسے مقدمات کہ جہاں اس کی موجودگی بھی نہیں،انتقامی سیاست کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،جسے نہ صرف پاکستانی بلکہ عالمی مبصر بھی بخوبی سمجھ رہے ہیںاور اس پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔عمران خان کا ایسے سنگین حالات میں پاکستان میں رہنا کہ جہاں اس پر ہردوسرے دن ایک نیا مقدمہ بن رہا ہو،اس کی جان کو شدید خطرہ ہو ،اس کے جذبوں کی عکاسی کرر ہا ہے،اس کے دعوے کو سچ ثابت کررہا ہے کہ وہ کہتا ہے ’’اس کا جینامرنا پاکستان کے ساتھ ہے‘‘،کسی بھی دوسرے سیاسی رہنما کا ایسا کوئی دعوی اس کے عمل سے مطابقت رکھتا دکھائی نہیں دیتا۔عمران خان کہتا ہے کہ وہ حقیقی آزادی کیلئے نکلا ہے،اسے اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کہ آزادی کی قیمت چکانے والے جرآت مند ہی حقیقی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔