Abdul Hanan Raja.Column

سُنو جو بھوک ہوتی ہے! ۔۔ عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

سُنو جو بھوک ہوتی ہے!

بقراط نے کہا تھا کہ اگر کوئی بھیڑیا ریوڑ پہ نگہبان بن جائے تو اس کی نگہبانی پہ یقین مت کرنا۔ شاہد اقبال نے غربت و افلاس کا کیا نقشہ کھنچا ۔ ’’ سنو جو بھوک ہوتی ہے، بہت سفاک ہوتی ہے۔ کسی فرقے کسی مذہب سے اس کا واسطہ کیسا،تڑپتی آنت میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے، تو وہ تہذیب کے بے رنگ کاغذ کو، تمدن کی سبھی جھوٹی دلیلوں کو جلا کر راکھ کرتا ہے۔ سات دہائیوں سے ہمارے نگہبانوں کو افلاس جیسی مرض کا پتا نہ غرض، مریض بھی وہی اور طبیب بھی۔ کالم کا عنوان کچھ اور تھا اور اس کے لیے معروف سکالر برادرم ڈاکٹرعلی وقار سے راہنمائی کا سلسلہ بھی تھا مگر رمضان کی آمد اور سستے آٹے کے حصول کے لیے کی جانے والی جانگسل تگ و دو اور پھر شدید زلزلہ نے ماحول بھی بدل دیا اور عنوان بھی۔ غیر مرئی طور پر خیالات کا رخ مڑا تو قلم بھی پیچھے ہو لیا۔ یہ کہنا اور لکھنا کتنا تکلیف دہ کہ ظالم نظام کے ستائے عوام پر رمضان المبارک کے مہینہ میں عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں کہ جب رحمت خداوندی اپنے پورے جوبن پر اور بخشش و مغفرت عام۔ مگر کیا اس ملک کا ذخیرہ اندوز، آڑھتی، اشیائے خورونوش سے وابستہ کاروباری طبقات، مجرموں کو تحفظ دیتی انتظامیہ اور ان کے اوپر حکمران ان سب سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن۔
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب کے مصداق، 22 کروڑ پر نگہبان بھیڑئیے کس منہ سے اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔ جس طرح ہمارے وزرا حصول امداد کے لیے دربدر ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ اپنا غصہ عوام پر اس طرح کی اذیت دے کر نکالتے ہیں۔ سستے بازاروں میں غیر معیاری اشیا۔ انتظامیہ کے افسران نے کبھی سرکاری نرخوں پر فروخت کیے جانے والے آٹے کا معیار چیک کیا…؟
ادھر ملز مالکان کو الگ شکایت کہ سرکار خراب گندم کی سپلائی کرتی ہے۔ ایک ایسا ملک کہ جہاں کی 60 فی صد آبادی زراعت اور زرعی انڈسٹری سے وابستہ کے حکمرانوں اور انتظامیہ کے لیے یہ شرم کا مقام نہیں کہ ستر، ستر اور 80 سال کے بزرگ سستے آٹے کے حصول کو ترسیں اور اس سے بھی بڑھ کے، کہ کئی اس کوشش میں زندگی سے گزر گئے۔ ہر سال رمضان آتا ہے۔ اعلانات ہوتے ہیں، بازار سجتے ہیں، مگر ذخیرہ اندوزی بھی اسی طرح اور ذخیرہ اندوز بھی سلامت، حقیقت تو یہ اور مفتیان کرام سے معذرت کے ساتھ کہ غریب اور متوسط طبقہ کے لیے نااہل اور بددیانت حکمرانوں نے بلکہ اس نظام نے رمضان کا مہینہ سوہان روح بنا دیا کہ عام دنوں میں گذر اوقات تو کر ہی لیتے مگر ظلم کے تمام ضابطے مل کر ان کے لیے اس ماہ میں عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں۔
کبھی کسی حکومت نے اس کی وجوہات اور اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ نہیں! کہ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔بھاؤ سستے ہیں تو توشہ خانہ کے۔ ایک توشہ خانہ عوام کے لیے بھی بن جاتا کہ جہاں ہیروں کے ہار، قیمتی گاڑیاں، دبیز قالین، مہنگی گھڑیاں، دلکش شالیں، سونے سے مرصع اسلحہ اور بیش قیمت زیورات نہیںبلکہ بنیادی اشیائے خورونوش، مگر رعایت ملے تو اسی تناسب سے کہ جو ہمارے مفلس اور کنگال (کردار سے) حکمرانوں کو ملتی ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ آج کتنے گھرانے سادہ پانی اور بدبودار آٹے سے بنی روٹی سے روزہ افطار کریں گے۔ کھجور تک لاکھوں کو میسر نہیں اور اشرافیہ کے دستر خوان سجیں گے غریب کے بچوں کی تمناؤں اور چھوٹی چھوٹی خواہشات کی مقتل گاہوں پر۔ امیر غریب کا فرق ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ تمام تر مادی ترقی کے باوجود تعلقات کی دنیا میں مادی وسائل کی اہمیت اب بھی قائم۔
رشتوں کو عزت وسائل کے دم قدم سے ہی ہے۔ تفریق کے وہ بت آج بھی قائم کہ جنہیں رحمت عالم محمد مصطفی ﷺ نے پائوں کی ایک ٹھوکر سے پاش پاش کر دیا تھا۔کہتے ہیں کہ غربت اور افلاس باعث ذلت ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کو انسان کے درجہ سے گرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ طبقہ امرا ان کو اچھوت اور ان کی محرومیوں پر کبھی صبر اور کبھی ان خوش کن خوابوں کہ جن کی تعبیر نہیں سے دلاسا دیتے ہیں۔
غربت نے سکھا دی میرے بچوں کو تہذیب
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
یہ خلیج کیوں بڑھ رہی ہے یہ سوچنا اب عوام کا کام۔ کہ جنہوں نے سوچنا تھا ان کے اور دھندے بہت۔ ان کو سیاست سے غرض ہے ریاست سے نہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ
یہ دحشتیں یہ وحشتیں یہ مطلبی سیاستیں
بے ربط سی زندگی بے سمت سی مسافتیں
یہ کونسا نظام ہے یا کوئی انتقام ہے،کیا اس کی کوئی حد بھی ہے یا سفر ناتمام ہے۔
زلزلہ شاید ہمارے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے ہی تھا کہ اللہ کے حضور معافی طلب کرنے کا اور اجتماعی توبہ کا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button