Editorial

نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت !

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ بڑے حادثے سے قبل تمام سیاستدان مل بیٹھ کر ملک کو سیاسی بحران سے نکالیں۔ کوئی بھی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا تھا لیکن اللہ کا شکر پاکستان میں اٹھارہ مارچ کا دن بڑی تباہی کے بغیر گزر گیا۔صدر عارف علوی نے کہاکہ وقت کی ضرورت ہے تمام سیاستدان یکجا ہوں، سیاست دان انتخابات کا رخ اختیار کریں، یہ ہمارا وطن ہے اس کی خاطر امن اور سلامتی کو لبیک کہیں، اسی طرح قومی سیاست میں قابل احترام سمجھے جانے والے سیاست دان چودھری شجاعت حسین نے حکومت سے کہا ہے کہ قومی سطح پر ڈائیلاگ شروع کیا جائے، اپنے پچاس سالہ سیاسی سفر میں اتنے پیچیدہ حالات کبھی نہیں دیکھے۔سیاستدان جلتی آگ پر پانی ڈالیں، ملک جلائو اور گھیراؤ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ہنگاموں اور دھرنوں کی سیاست سے قوم پریشان ہے ، ڈپریشن اور مایوسی بڑھ رہی ہے، مسائل کا حل صرف سیاستدانوں کے پاس ہے، تمام قوتیں مل کرملک کا سوچیں۔ ہفتہ کے روز سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہوئے اِن کی غیر موجودگی میں پولیس نے اُن کی رہائش گاہ پر سرچ آپریشن کیا تو اسلام آباد میں پیشی کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان گھمسان کی جنگ جیسی صورت حال دیکھنے میں آئی۔ قریباً تین روز قبل لاہور زمان پارک میں پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنان چوبیس گھنٹے سے زائد آمنے سامنے رہے یہی نہیں اِس سے قبل ہونے والی ایک کوشش میں تحریک انصاف کے ایک کارکن کی موت بھی ہوئی تھی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی قبل ازیں بھی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ثالثی کی کوشش کرچکے ہیں لیکن موجودہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک اِس ضمن میں کسی بھی طرف سے ہونے والی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوئی اسی لیے حالات بہتری کی بجائے بدتری کی طرف جارہے ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنے اپنے موقف پر بضد ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چونکہ مختلف کارروائیوں میں استعمال کیا جارہاہے لہٰذا انہیں دوسری طرف سے سیاسی کارکنوں کی مزاحمت کا سامنا ہے، اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی کارکنوں کو آمنے سامنے نہ لایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ معیشت کی زبوں حالی سبھی کے سامنے ہے، داخلی حالات ہم ازخود ٹھیک کرسکتے ہیں، داخلی چیلنجز اور مطالبات ناقابل تردید اور حالات کی سنگینی چیخ چیخ کر بیان کررہے ہیں مگر داخلی و خارجی حالات کی سنگینی کا ادراک کرنے والے اِن کی جانب متوجہ نہیں ہیں یا ابھی مزید کچھ ہونے کا انتظار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات کی خرابی بیک وقت کئی اطراف سے مسائل اور بحرانوں کو اپنی طرف بلارہی ہے، پہلے ہی ہم معاشی مسئلے میں شدید طرح اُلجھے ہوئے ہیں اور اب تو ایسے دعوے کیے جارہے ہیں کہ ہماری سلامتی کے معاملات کو بھی شرائط کے ذریعے چھوا جارہا ہے، لہٰذا خدارا ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی بجائے تاریخ میں عظیم لیڈر کے طور پر پہچان بنانے کے لیے انائوں کے بت پاش پاش کردیں، ملک و قوم کو اِس مقام تک پہنچنے میں 75 سال لگے ہیں، کئی شخصیات نے جانوں کے نذرانے پیش کیے، کئی شخصیات ملک و قوم کے لیے درپردہ کوششیں کرتی ہوئیں اِس جہان فانی سے رخصت ہوگئیں تبھی ہم آج اِس مقام پر ہیں، پاکستان ہمارا گھر ہے، اس کی حفاظت اور سلامتی ہماری ذمہ داری ہے لیکن سیاست نے ملک و قوم کو آگے اور اوپر لے جانے کی بجائے نیچے اور پیچھے کرنے کی روش اختیار کیے رکھی ہوئی ہے، ماضی میں بھی یہی کھینچاتانی اور سیاسی حربے اختیار کیے جاتے تھے آج بھی کیے جارہے ہیں، ماضی میں بھی نتائج کو خاطر میں رکھے بغیر بلاخوف و خطر دوسروں کو کچلنے کی پالیسی روا رکھی گئی تھی پس آج بھی وہی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کیونکہ وہی سیاسی رویے اور وہی مخالفین کو طاقت کے زور پر دبانے کی سوچ ابھی تک موجود ہے بلکہ موجودہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے ماضی کے سانحات اور واقعات سے کچھ نہیں سیکھا، وگرنہ سقوط ڈھاکہ اور سانحہ ماڈل ٹائون سبق سیکھنے کے لیے کافی تھے۔ ایک طرف مل بیٹھنے کا پرچار کیا جاتا ہے تو دوسری طرف کوئی نہ کوئی ایسی کارروائی سامنے آجاتی ہے جو ماحول کو بہتر بنانے کی بجائے مذاکرات کی فضا کو ہی آلودہ کردیتی ہے، داخلی و خارجی مسائل اور بحران تقویت پکڑتے جارہے ہیں مگر سیاسی میدان میں چھڑی جنگ نے اِس وقت قوم کو یکجا کرنے کی بجائے واضح طور پر تقسیم کیا ہوا ہے اِس لیے پاکستان دشمن ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے دبائو بڑھارہے ہیں، آج سنجیدہ طبقات عوام کی آواز بن کر کہہ رہے ہیں کہ داخلی و خارجی مسائل کے لیے سیاسی کج بحثی اور سیاسی حربوں سے گریز کریں اور مل بیٹھیں، مگر اُن باتوں پربھی کان نہیں دھرا جارہا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حزب اختلاف اور اُن تمام سٹیک ہولڈرز کو داخلی و خارجی مسائل پر اتفاق رائے کے لیے مدعو کرے اور تب تک اِس معاملے کی جانب متوجہ رہے جب تک پوری کی پوری سیاسی قیادت اور تمام سٹیک ہولڈرز سنجیدگی اور نیک نیتی کے ساتھ حقیقی مسائل کا متفقہ حل نہیں نکال لیتے، ملک و قوم کو درپیش حقیقی مسائل کی جانب متوجہ ہونا ہی سیاست ہے مگر ہمارے ہاں اِس کا ہمیشہ سے قحط رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button