ColumnJabaar Ch

زوال .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

ترقی اور زوال جس معاشرے میں بھی ہوں ہوتے ہمہ جہت ہیں۔دونوں ایک دوسرے کی ضدہیں ترقی اوپرتو زوال نیچے۔ترقی سے خوشحالی توزوال سے تباہی ۔ترقی جس بھی معاشرے میں ہوسب کو فائدہ دے جاتی ہے۔ دولت اوپر سے نیچے آتی ہے۔چوری چکاری کم ہوجاتی ہے۔ترقی ہو یا زوال اس میں نہ سہرا کسی ایک کے سر سجتا ہے اور نہ ہی قصور کسی ایک کا نکلتا ہے۔دونوں صورتوں میں معاشرے کا ہر فرد ہی حصہ داربنتا ہے۔ترقی ہو تو ان کو بھی فائدہ ہوجاتا ہے جنہوں نے اس کیلئے کوئی کوشش نہیں بھی کی ہوتی اسی طرح زوال ان کو بھی نقصان پہنچاجاتا ہے جن کا کوئی قصور بھی شاید نہیں ہوتا۔تباہ شدہ معاشرے میں نیک و کار بھی محفوظ نہیں رہتے۔زوال شدہ معاشرے کی ایک بڑی نشانی اس کی تقسیم ہوتی ہے۔کسی بات پر اتفاق ہی ہونا بند ہوجاتاہے،دماغ بند،ایک دوسرے کی برداشت بند۔
بغداد جو یورپ کیلئے مشعل راہ تھا ۔علم و فنون کا گڑھ۔کتب بینی ہی نہیں کتب کی تخلیق کا بھی مرکز۔ تحقیق کے شاندار مراکز۔دنیا میں شاندار استعارا۔ خلافت عباسیہ کا دارلخلافہ ۔صدیوں تک ترقی ۔آگے سے آگے پوری مسلم امہ کی رہنما ئی ۔751میں بنوامیہ سے خلافت لینے کے پانچ صدیوں تک خلافت کو اپنے پاس رکھا ۔جدید سیاسی اور معاشی نظام کی بنیاد لیکن آخرکار زوال پذیر ۔دس لاکھ کی آبادی کی حفاظت کیلئے ساٹھ ہزارفوج تھی لیکن جب معاشرہ تقسیم ہوا۔حکمرانوں پر سے اعتباراٹھنا شروع ہوا تو ترقی زوال میں بدلتی گئی۔سن بارہ سو کے بعد ہر اعشاریہ نیچے کی طرف جانے لگا۔علم کے وہ مراکز جو دنیا کی رہنمائی کرتے تھے آپسی اختلافات میں جُت گئے۔فرقوں کی بحث اور فقہی اختلافات نے معاشرے میں تفریق پیدا کردی۔ایک عالم اپنے گروہ کے ساتھ دوسرے سے خود کو بہتر گرادننے لگا۔ ہر کوئی اپنے تئیں مکمل اور نجات دہندہ ۔خلافت الگ کمزورہونا شروع ہوگئی۔دوسری طرف ہلاکوخان منگولوں کی قیادت کرتے اپنی حکومت کو وسعت دے رہا تھا۔اس نے دیکھا کہ بغداد میں تقسیم ہی تقسیم ہے۔ حکومت اور فوج کمزورہوگئی ہے اس لیے یہی وہ موقع ہے جب بغداد کو فتح کرکے منگول سلطنت میں شامل کیا جاسکتا ہے تو اس نے 29 جنوری 1258کو بغدادکا محاصرہ کرلیا ۔یہ محاصرہ تیرہ دن جاری رہا اور آخر کار فو ج نے ہتھیار ڈال دیے۔بغدادفتح ہوگیا۔دولاکھ جانیں چلی گئیں۔ ہلاکوخان کے ظلم کی داستان پوری دنیا میں پھیل گئی۔کہا جاتا ہے کہ جب بغداد کا محاصرہ ہوچکا تھا۔ ہلاکوخان اپنی پوری طاقت کے ساتھ بغداد کے دروازے پر کھڑا تھا اس وقت بھی بغداد کے لوگ تقسیم اور تفرقہ کا شکار تھے۔اس بات پر مناظرے چل رہے تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام۔
جب بحث و مباحثہ کا موضوع یہاں تک گرجائے تو اس معاشرے کو گراوٹ سے کوئی بچا نہیں سکتااور پھر جس طرح ترقی ایک دن کی کہانی نہیں ہوتی اسی طرح زوال کے پیچھے بھی لمبی داستان ہوتی ہے۔مجھے اپنا معاشرہ دیکھ کر سن بارہ سو کا بغداد یاد آتا ہے۔یہاں بھی ہر طرف تباہی کے آثار واضح ہورہے ہیں۔ ہماری فالٹ لائن ایک دم واضح۔ ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔سیاسی تقسیم زہر آلود۔دوسرے کا سیاسی وجود ہی گوارا نہیں۔سوشل میڈیا بے لگام ہتھیار۔یہاں اپنا مخالف دیکھو۔ اس کی ماں بہن ایک کروکوئی کیا بگاڑ لے گا۔پھر جب صورتحال اس قدر تقسیم کا شکار ہو۔ تعصب اور نفرت کے سوتے پھوٹ نکلیں تو پھر قانون کمزور۔ادارے نحیف حکومتیں بے اثر ہوجایا کرتی ہیں۔آج جو لوگ اس لیے اس معاشرے اور ملک کی چولیں ہلانے میں فخرمحسوس کررہے ہیں کہ وہ اس حکومت کو گھر بھیج کر اپنا قائد دوبارہ کرسی اقتدار پر بٹھادیں گے وہ جان لیں کہ حکومت بدلنے سے بدلے گا کچھ نہیں۔حکومت چلانے کیلئے اب تو قرض ملنا بھی جوئے شیر لانے جیسا ہورہاہے۔فرہاد نے تو شاید شیریں کی محبت میں دودھ کی نہرکھود ڈالی تھی لیکن ہم میں تووہ سکت بھی نہیں رہی ۔مجھے یقین ہے کہ اگر کسی دیوانے نے اب وہ نہر کھودنے کی ہمت کرڈالی تو پیچھے سے دوسری پارٹی اس نہر کو بند کرتی چلی جائے گی کہ تو نے ٹھیک نہیں کھودی اس کو ہم کھودیں گے تاکہ کریڈٹ ہمیں ملے۔
اس کریڈٹ کے چکرنے ہمیں پوری دنیا میں بے کریڈٹ کر دیا ہے۔آئی ایم ایف منہ پرتمانچے ماررہا ہے لیکن تمانچے برداشت کرنے کی بھی ایک حد ہی ہوتی ہے۔ہم چیزیں مہنگی کرسکتے ہیں ۔ٹیکس لگاسکتے ہیں جو لگادیے گئے لیکن اب اسحاق ڈار کی باتوں سے تو معاملہ ہی الگ دکھائی دے رہا ہے۔چونکا دینے والا بیان کہ پاکستان کیسے میزائل رکھے گا، کتنی رینج کے میزائل ہمارے پاس ہونے چاہئیں اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔معاملہ سیدھا اور سادہ ہے کہ عالمی طاقتیں بذریعہ آئی ایم ایف ہمارا ناطقہ بندکرنے کے درپے ہیں اور ہم یہاں کیا کررہے ہیں ؟ ہم ایک دوسرے کے جانی دشمن ۔اقتدار کی لڑائی کا ایندھن بنتے لوگ۔اپنی حفاظت کیلئے کارکنوں کا استعمال اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی ترکیبیں۔کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اب ہمیں قرضہ بھی ایٹمی اثاثے گروی رکھنے کے عوض ملے گا؟باقی ملک کے سارے اثاثے تو پہلے ہی گروی پڑے ہیں۔
ہمارے ملک کی باگ دوڑ چلانے والے اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی قوت سے کب سے محروم ہوچکے ۔حکومت اور اپوزیشن ایک ایسے ملک کے اقتدار کیلئے لڑرہے ہیں جو دیوالیہ ہونے کے کنارے کھڑا ہے اور اس کو کچھ دیر کیلئے آگے تو کیا جاسکتاہے لیکن ٹالانہیں جاسکتا۔مہنگائی اس ملک میں پچاس فیصد کو چھونے والی ہے۔غریب مرچکا ۔ اب مڈل کلاس ہی غریب طبقہ ہے بھائی۔چھ سو روپے کا ایک کلو گھی ملتا ہے ۔ آٹا سوروپے سے اوپراور ایک کلو آٹے میں بنتا کیا ہے؟پیسے کی ویلیو کہاں رہی ہے۔ مہنگائی اس معاشرے کو کھوکھلا کرچکی۔یہاں کپڑے بیچنے والوں کے کپڑے سارے کے سارے سلامت لیکن جن کیلئے بیچنے تھے وہ خود اپنے کپڑے بیچ چکے۔گوشت اور دالیں تو اب اشرافیہ کا بھوجن ہوچکیں۔عام آدمی کے گھر سبزی آجائے تو عید کا سماں بن جاتا ہے۔چینی ایک سو دس روپے کلو۔ دودھ، دہی، چائے، مرچ،مصالحے جس چیز پر بھی انگلی رکھیں قیمت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔
چلیں مان لیتے ہیںکہ ملک کوئی لمیٹڈ کمپنیاں نہیں ہوتے ۔ اوپر نیچے ہوجاتی ہے معیشت ،لیکن اس کی سمت تو درست ہو۔یہاں سمت ہی درست نہیں ہے۔ دوصوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرکے ایک الگ ہی تماشا کھڑا کردیا گیا ہے ۔پیچھے خواہش کیا ہے ۔خواہش یہ ہے کہ فوری اقتدار کی واپسی ہوجائے۔ اقتدارسے باہر دل تڑپ رہا ہے ۔ کسی کوملک کا درد نہیں ہے صرف اقتدارکا درد ہے ہرطرف ۔دوبارہ عرض ہے ہر طرف اقتدارکا درد ہے۔ جو بیٹھے ہیں ان کو چھوڑنے سے ڈر لگتا ہے اور باہر ہیں مہاتما ان کو یہ خوف کہ اگر نہ ملا تو میرا کیا بنے گا؟اقتدار والوں کیلئے تو پورا ملک توشہ خانہ ہے۔ توشہ خانہ کی لسٹ دیکھ لیں کہیں سے لگتا ہے کسی کو اس ملک کا درد ہے؟صرف اس اقتداری ٹولے کی دیگ کا ایک چاول توشہ خانہ کو سمجھ کر چکھ لیں ۔ گھن آنے لگے گی۔جن کو چورکہا جاتا ہے وہ بھی ننگے اور جو چور چور کی رٹ لگارہا ہے وہ بھی ننگا۔انسان کے کردار کا پتا ہی اس وقت چلتاہے جب سامنے قیمتی چیز پڑی ہو ۔ ہاتھ بھی پہنچ رہا ہو،لیکن دل سے آوازآئے کہ نہیں اس پر تم سے زیادہ دوسروں کا حق ہے۔کوئی ایک تو ایسا ہوتا کہ سمجھا جاتا کہ اس کو لالچ نہیں ہے؟کوئی ایک ؟شوکت عزیزسے نواز شریف، شاہد خاقان سے عمران خان اور مشرف سے علوی تک سب بھوکے ننگے۔توشہ خانہ کے تحائف ہی تو تھے اور وہ بھی آپ کی شکلیں دیکھ کر کسی نے نہیں دیے تھے اس لیے دیے تھے کہ تم ملک کے صدر تھے یا وزیراعظم۔باقی تو چورتھے یہ عمران خان کو کیاہوگیا تھا؟اس کو تو اللہ نے سب کچھ دے دیا تھا ۔کاش توشہ خانہ بھی دے چکا ہوتا۔ہیرے، جواہرات اور گھڑیاں دیکھی نہیں کہ ان کو جہازسے سیدھا ہی بنی گالا پہنچانے کا حکم ہوا؟یہ کس ریاست مدینہ کے داعی ہیں ۔میرے مدینے کی ریاست تو وہ ہے بھائی جس میں میرے نبی کریم ﷺ اس وقت تک اپنے گھر تشریف نہیں لے جاتے تھے جب اپنے سامنے پڑا سامان بانٹ نہ دیں چاہے وہ کھجوروں کا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو۔ایک طرف بانٹنے والے اور دوسری طرف اپنا گھر بھرنے والے؟کیا عمران خان توشہ خانہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ عاملین زکوۃ نے نبی ﷺکے سامنے زکوۃ کا مال رکھا اوردوسری طرف تحائف رکھ کر بولے یہ ہمیں ملے ہیں ان پر ہمارا حق ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم گورنرہو اس لیے لوگوں نے آپ کو دیے ہیں میں تمہیں عہدے سے ہٹا کر بھیجتا ہوں اگر کسی نے پھوٹی کوڑی بھی دیدی تو اس کو اپنا حق سمجھ کر رکھ لینا ۔ یہ تحائف بیت المال کے ہیں وہیں جائیں گے۔یہی توشہ خانہ کی حقیقت ہے ۔اس ملک کا سوچ لیں ۔ملک رہے گا تو اقتدار بھی ملے گا۔ورنہ زوال ہے اور زوال جب آتا ہے تو ہمہ جہت ہوتا ہے اور پھر اشرافیہ اور غریب کا فرق مٹنے لگتا ہے۔جب یہ فرق مٹ جائے تو خونریزانقلاب آتا ہے ۔خون ریز انقلاب۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button