ColumnRoshan Lal

سیاست، تشدد اور قانون .. روشن لعل

روشن لعل

 

سیاست کی مختلف تعریفوں میں سے ایک تعریف کا مفہوم یہ ہے کہ سیاست ایسی سرگرمیوں کے مجموعہ کا نام ہے، جن کے ذریعے کوئی گروپ اپنی سیاسی جماعت یا رہنما کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حکومت کی ایک نہیں بلکہ مختلف قسمیں ہو سکتی ہیں۔ ان مختلف قسموں میں سے دو زیادہ معروف قسمیں جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کی ہیں۔ہمارے ملک میں آئینی طور پر جمہوری نظام حکومت قائم ہے۔ سیاسی حلقوں میں جمہوری حکومت کی معروف ترین تعریف ،’’ عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعے اور عوام کیلئے ‘‘ ہے۔ اگر سیاست کی تعریف کو مد نظر رکھا جائے تو اس سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں کا واحد مقصد جمہوری حکومت کا قیام یا جمہوریت کا استحکام ہوتا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں کا مقصد جمہوری حکومت کی طرح ، آمرانہ، سوشلسٹ، کمیونسٹ ، شخصی اور حتیٰ کہ شاہی حکومت کا قیام بھی ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں نے کبھی ایوب خان کو پاکستان میں اپنی بادشاہت قائم کرنے کا مشورہ دیا وہ بھی اپنی طرف سے سیاست ہی کر رہے تھے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ، جب یہاں جمہوریت پسندوں نے مشرف کی حکومت کو چیلنج کیا تو چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب کا منتخب وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود یہ بیان دیا تھا کہ وہ جنرل پرویژ مشرف کو دس مرتبہ باوردی صد ر پاکستان منتخب کرائیں گے۔ چودھری پرویز الٰہی نے جمہوری نظام حکومت کے تحت ایک صوبے کامنتخب وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود جو بیان دیا وہ چاہے جمہوریت کی نفی تھا مگر اس کے باوجود ان کی اس حرکت کو سیاسی عمل کے زمرے سے خارج نہیں کیا جاسکتا ۔یہاں مذکورہ باتوں کی نشاندہی کرنے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ دنیا میں وسیع پیمانے پر سیاست کا محور جمہوریت ہونے کے باوجود لوگوں کے ہر سیاسی عمل میں سے جمہوریت پسندی برآمد نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں کہیں اور اس بات کا اطلاق ہو یا نہ ہو مگر پاکستان کے متعلق یہ بات بلاتردد کہی جاسکتی ہے کہ یہاں سیاسی گروہوں اور سیاست سے وابستہ لوگوں کا مطمع نظر حکومت یا اپوزیشن میں رہتے ہوئے مطلق جمہوری رویے اختیار کرنا ہر گز نہیں ہوتا ۔ یہا ں وسیع پیمانے پر جمہوری نظام کو صرف اس لیے قابل قبول سمجھا گیا ہے کیوں فی الوقت اس سے وابستہ ہوئے بغیر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے حقیقت حال یہ ہے کہ وہ گروہ جو غیر جمہوری حکومتیں قائم کرنے اور ایسی حکومتوں کا حصہ بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا کرتے تھے، اب اس قابل نہیں رہے کہ ماضی کی طرح اپنی اور دوسروں کی خواہشیں پوری کر سکیں ۔ ان گروہوں سے حکمرانی حاصل کرنے کی امیدیں وابستہ کرنے والے یہ جان چکے ہیں کہ ماضی کے بادشاہ اور بادشاہ گر پس پشت رہ کر کچھ حرکتیں تو کر سکتے ہیں مگر اب ان کی حرکتوں سے پہلے جیسی برکتیں برآمد ہونا ممکن نہیں رہا۔ مذکورہ حقیقت سے آگاہی کے بعد اب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی خواہش رکھنے والے لوگ جمہوریت کا دم بھرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان لوگوں کی بنیادی سیاسی تربیت کا مرکزکیونکہ بادشاہ گروں کی نرسریاں رہی ہیں اس لیے جمہوریت کا دم بھرنے کے باوجود یہ اپنے رویوں کو جمہوری نہیں بنا سکے۔
جمہوری رویوں کا مطلب جہاں اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ،وہاں دوسرے کی رائے کا احترام بھی ہوتا ہے ۔ اسی طرح جمہوری رویوں کا اہم ترین عنصر عدم برداشت سے گریز بھی ہے۔وہ لوگ جن کی پرورش بادشاہ گروں کی نرسریوں میں ہوئی انہوں نے اپنے مفاد کے تحت جمہوریت کا دم بھرنے پر مجبور ہونے کے بعد یہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ برداشت اور دوسروں کی رائے کے احترام جیسی باتوں کو کسی کھاتے میں لائے بغیر ہر صورت میں اپنی ہر طرح کی بات کے اظہار کا حق چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ کسی ثبوت، دلیل اور جواز کے بغیر وہ جس پر جو بھی الزام عائد کریں اور چاہے جسے بھی گالی دیں ، ان کے ابلاغ پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ وہ خود کو اس بات کیلئے بھی جوابدہ نہیں سمجھتے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے انہوں نے کیوں دوسروں کی زبان بندی کیلئے قانون تک بنانے سے دریغ نہیں کیا تھا۔ان کا طرز عمل یہ ہے کہ دوسروں کیلئے تو وہ غلیظ ترین زبان بھی استعمال کر جاتے ہیں مگر خود اسی طرح کا سخت ردعمل کیا مناسب الفاظ میں آنے والا جواب بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ ان کی عدم برداشت کا عالم یہ ہے کہ اپنی غلیظ باتوں کا مناسب ترین الفاظ میں جواب سن کر طیش میں آجاتے ہیں اور پھر سیاسی مخالفین کیلئے اپنے پرتشدد جذبات کا اظہار کرتے وقت قانون کو ہاتھ میں لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ان کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینے کے بعد اگر قانون ان کے خلاف حرکت میں آجائے تو پھر وہ لاقانونیت کی آخری حدیںعبور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لاقانونیت کی آخری حدیں عبور ہو جانے کے بعد بھی عدل کا ترازو ماضی کی طرح کمال مہربانیاں کرتے ہوئے ان کی طرف ہی جھکا ہوا نظر آتا ہے۔
سیاست میں ان دنوں یہاں جس حد تک تشدد اور لاقانونیت نظر آرہی ہے اور اس تشدد اور لاقانونیت کی راہ میں حائل ہونے کی بجائے متعلقہ ادارے جس قسم کی سہولت کاری کر رہے ہیں یہاں اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی تفصیل اور کسی کا نام ظاہر نہ ہونے کے باوجود بھی ہر خاص و عام باآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس معاملے میں کون نامور ہے۔ عام اور معمولی سا فہم رکھنے والے لوگ تو یہاں بہت کچھ سمجھ رہے ہیں مگر نہ جانے وہ کیوں نہیں سمجھ پارہے جن کے متعلق تصور کیا جاتا ہے کہ ان میں سمجھ سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ملک کی ابتر معاشی صورتحال کی وجہ سے اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری تمام سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس سے ملک میں بد ترین سول نافرمانی اور عدم تعاون کا خطرہ پیدا ہو چکاہے ۔ سول نافرمانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب عام لوگ قانون کی پرواہ کیے بغیر اپنا ہر عمل کسی ضابطے اور اخلاق کو مد نظر رکھ کر نہیں بلکہ اپنی مرضی اور ضرورتوں کے مطابق کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عمل اگر کسی ملک میں شروع ہوجائے تو پھر بد ترین انتہائوں کو چھوئے بغیر اس کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں وطن عزیز میں جو کچھ ہوا اسے مد نظر رکھتے ہوئے بڑی آسانی سے کہا جاسکتا ہے خاص لوگوں کی طرف سے یہاں دھڑلے سے سول نافرمانی کا آغاز کیا جاچکا ہے ۔ خاص لوگوں کی سول نافرمانی کا سخت جواب دینے کی بجائے ان کے خلاف جس قسم کا نرم رویہ اختیار کیا گیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا ہے یہاںقطعاً اس بات کا احساس نہیں کیا جارہا ہے کہ سیاست میں عدم برداشت ، تشدد اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے جیسے رویوں کا کلچر عام ہو کر ملک کو کس قسم کے خطرناک مقام کی طرف لے کر جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button