Editorial

مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رحجان

مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رحجان

ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ کا رجحان بدستور جاری ہے۔ حالیہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں مزید 0.96 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ سالانہ بنیادوں پر 45.64 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق سالانہ بنیادوں پر 17 ہزار 732روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں41.32فیصد، 17 ہزار 733روپے سے 22 ہزار 888روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کےلیے 44.23فیصد، 22 ہزار 889روپے سے 29 ہزار 517 روپے ماہانہ والے طبقے کے لیے 44.51فیصد، 29 ہزار 518روپے سے 44ہزار 175 روپے والے طبقے کے لیے 45.04 فیصد رہی جبکہ 44 ہزار 176روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 47.997فیصد رہی ہے۔مہنگائی پر مزید بات کرنے سے پہلے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت رمضان المبارک کے دوران مستحق افراد کو ریلیف اور آٹے کے تحفے کی فراہمی کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کا ذکر کرناچاہیں گے جس میں وزیراعظم پاکستان تاکید کی ہے کہ مستحق افراد کو فراہم کئے جانے والے آٹے کے تحفے کے معیار پر کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ حکومت غریب و متوسط طبقے کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں مستحق افراد کے لیے آٹے کا تحفہ دیا جا رہا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار غریب عوام کے لیے رمضان میں مفت آٹا کی فراہمی کا پیکیج تیار کیا گیا ہے۔ ماہ ِرمضان میں پنجاب بھر کے ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں کو مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا جبکہ خیبرپختونخوا میں بھی رمضان کے دوران مستحق خاندانوں کو آٹے کا تحفہ دیا جائے گا۔ بلاشبہ وفاقی حکومت کا رمضان المبارک میں مستحق خاندانوں کو آٹے کے تین تھیلے فراہم کرنے کا فیصلہ ہر لحاظ سے صائب گردانا جائے گا مگر تبھی، اگر مستحق خاندانوں کو باعزت طریقے سے فراہم ہو اور کوئی بھی مستحق خاندان اِس سے محروم نہ رہے۔ آٹے کی تقسیم کا عمل انتہائی شفاف اور ہر لحاظ سے غیر سیاسی رہنا چاہیے بلاتفریق و تمیز سبھی کو اِس سہولت سے استفادہ حاصل کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، امیر و غریب ہر گھرانہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا شدت اور بے چینی سے انتظار کررہاہے لیکن موجودہ مہنگائی اور رمضان المبارک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خودساختہ غیر معمولی اضافہ عام پاکستانیوں کے لیے الگ سے تشویش میں اضافہ کررہاہے، ماضی میں کبھی ایسا وقت نہیں دیکھا گیا جب زخیرہ اندوزوں نے زخیرہ اندوزی نہ کی، تاجروں نے گوداموں کے دروازے کھول دیئے، لوگوں کو اشیائے خورونوش کی دستیابی میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور ہم مثالی معاشرے کے طور پردیکھے گئے، اِس کے برعکس ہمارے یہاں پورے ملک میں ایک سی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے، قبل از رمضان، اشیائے ضروریہ زخیرہ کرلی جاتی ہیں اور اِس حد تک جاتی ہیں کہ بازار میں مصنوعی قلت نظر آتی ہے، پھر اِس کو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے نام پر مہنگا کرکے من پسند نرخوں پر فروخت کیا جاتاہے، سحر و افطار کے اہتمام اور عید کی تیاریوں کی وجہ سے پہلے ہی اخراجات غیر معمولی طور پر بڑھ جاتے ہیں ایسے میں گراں فروشی اور زخیرہ اندوزی عام صارف کی پریشان کو دُگناکردیتی ہے، اور سرکاری مشینری گراں فروشوں کے خلاف جس نوعیت کی کارروائیاں کرتی ہیں، وہ مذاق سے کم نہیں ہوتیں کیونکہ چند ایک خوانچہ فروشوں کو سلاخوںکے پیچھے ڈال کر کاغذوں کا پیٹ تو بھرا جاتا ہے مگر مہنگائی کے حقیقی عوامل کی کسی مرحلے پر روک تھام کے لیے عملی کاوشیں نہیںہوتیں۔ موجودہ معاشی صورت حال تشویش ناک ہے، ریاست کے سربراہ سے لیکر عام پاکستانی تک، سبھی اِس کا اعتراف اور ادراک کررہے ہیں، معاشی مسائل گنجلک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں، لہٰذا آنے والے دنوں میںرمضان المبارک میں مہنگائی ماضی کے مقابلے میں تاریخ رقم کرے گی کیونکہ قبل از رمضان المبارک ہی وفاقی ادارہ شماریات مہنگائی کی شرح کی گواہی دے رہا ہے، حالانکہ معاشی ماہرین مہنگائی کو اِس سے کہیں زیادہ قرار دیتے ہیں مگر پھر بھی سرکاری ادارے کی رپورٹ پر اعتبار کرتے ہوئے جب ہم رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا آغاز کریں گے تو اشیا خورونوش کی قیمتیں اور لوگوں کی قوت خرید کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ مہنگائی نے چونکہ مٹی سے لیکر پانی تک ہر چیز کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے لہٰذا یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ عام صارفین کو صرف ماہ مقدس میں ہی آٹا مفت فراہم نہ کیا جائے بلکہ تمام متوسط پاکستانیوں کو اِس ماہ رمضان اور اِس کے بعد بھی آٹا، گھی، چینی، چاول، ادویات، ایندھن اور جہاں تک ممکن ہوسکے محصولات کے معاملےمیں بھی بڑی چھوٹ دی جائے۔ بجلی، پانی اور گیس کے بلوں میں بھی لوگوں کو ریلیف فراہم کیا جائے کیونکہ موجودہ مہنگائی اورمعاشی حالات عام پاکستانی کی استطاعت سے باہر ہوچکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button