Columnمحمد مبشر انوار

پھسلتی ریت ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

پھسلتی ریت

پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت ،بطور حزب اختلاف،ہمیشہ ایک بات کی تکرار کرتے نظر آتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں ملکی معاملات چلانے کیلئے سویلین بالا دستی یقینی ہونی چاہیے جبکہ یہی سیاستدان اسی لمحہ پس پردہ جمہور روایات کی آبروریزی کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ اقتدار کی بھیک، غیر جمہوری طاقت کی طرف جھولی پھیلاکر مانگتے نظر آتے ہیں۔ اس کا اظہار موجودہ وزیراعظم کے حالیہ انٹرویو میں واضح ہو چکا ہے جبکہ اس حقیقت سے کوئی بھی پاکستانی سیاست کا فہم و ادراک رکھنے والابخوبی رکھتا ہے،البتہ وزیراعظم کے اس اعتراف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔وزیراعظم کے اس اعتراف کے بعد یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان جو عوام نمائندگان کی حیثیت رکھتے ہیں ،جمہوری طریقوں سے اقتدار تک پہنچتے ہیں،ان کو ایسی پیشکش کیوں کی جاتی ہے؟ اس کے پس پردہ ایسے کیا محرکات ہیں کہ مخصوص سیاستدانوں یا بالعموم تمام سیاستدانوں کو اقتدار کی یہ پیشکش مقتدرہ کی طرف سے کی جاتی ہے؟اس پیشکش کے عوض،سیاسی اشرافیہ سے کی توقعات کی جاتی ہیںیا رکھی جاتی ہیں اور کیا سیاستدان ان توقعات پر پورا اترتے ہیں؟اسی ضمن میں ایک دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ چند سیاستدانوں کے خلاف مقتدرہ سمیت پورا نظام کیوں روبہ عمل ہو جاتا ہے اور ان کیلئے ذاتی و سیاسی زندگی محال کیوں کر دی جاتی ہے؟ان سوالات کے جوابات اس وقت موجود سیاسی صورتحال سے عیاں ہیں کہ عمران خان اپنے دور اقتدار میں مسلسل یہ گردان کرتے رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں لیکن مدت ملازمت میں توسیع کے بعدفوری طور پر معاملات عمران خان کے ہاتھوں سے نکلتے گئے اور ان کی حکومت کیلئے پریشانیوں کے باب کھلنا شروع ہو گئے۔ ویسے تو ایک پیج کرونا کی وجہ سے تھوڑا تاخیر سے پھٹا وگرنہ وزیراعظم کے موجودہ انکشاف کے بعد قرین قیاس تھا کہ کرونا کی عدم موجودگی میں ایک پیج اسی وقت پھٹ جاتا اور عمران خان کی حکومت کیلئے شدید بحرانی حالات پیدا کر دئیے جاتے لیکن گمان یہ رہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کرونا سے عہدہ برآء نہ ہوسکے گی اور بآسانی اسے اقتدار سے الگ کیا جا سکے گا۔ مزید یہ کہ اس ہنگام میں تحریک انصاف اپنی عوامی مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی اور عوامی ردعمل قریباً نہ ہونے کے برابر رہے گالہٰذا وقت کا انتظار کیا گیا لیکن بدقسمتی سے مقتدرہ کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور عوام پوری شدت کے ساتھ عمران خان کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ یہ صورتحال کسی بھی صورت مقتدرہ کیلئے قابل قبول نہیں ہوتی اور جس سیاستدان کو اس طرح اقتدار سے الگ کیا جائے،اسے فوری طور پر واپس اقتدار میں نہیں آنے دیا جاتا کہ یہی اس ملک میں دیکھا گیا ہے۔ ایسا کوئی بھی سیاستدان جو مقتدرہ کی طاقت کو چیلنج کرے،اسے نشان عبرت بنانے کیلئے مقتدرہ کے ترکش میں کئی ایک تیر ہمہ وقت موجود رہتے ہیں بس ان تیروں کو چلانے کیلئے طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ سول حکومتوں میں یہ تیر سویلین کے کندھے پر رکھ کر چلائے جاتے ہیں جبکہ دور آمریت میں ان تیروں کو چلانے والے براہ راست آمر کے ہاتھ نظر آتے ہیں، جیسا کہ ضیا دور میں’’ظلم کی داستان‘‘ چلا کر عوامی سیاستدان کی کردار کشی کی گئی تھی۔سول حکمرانی میں بظاہر ہاتھ سویلین کا نظر آتا ہے لیکن پس پردہ وہی غیر جمہوری طاقت یہ سارا کھیل کھیلتی نظر آتی ہے،ایسی صورتحال میں اگر سول حکمرانوں کی ذاتی پرخاش بھی شامل ہو تو اس میں انتقامی تڑکے کا رنگ بھی نمایاں نظر آتا ہے۔
عمران خان کے خلاف اس وقت ،پاکستانی سیاسی انتقامی تاریخ کی سب سے بڑی انتقامی کارروائیاں جاری ہیں کہ اس سے قبل کبھی بھی کسی سیاسی شخصیت پر اتنے مقدمات قائم نہیں کئے گئے، جتنے اس قلیل مدت میں عمران خان پر قائم ہو چکے ہیں۔ ان مقدمات کے پس منظر میں ایک طرف مقتدرہ کا لائحہ عمل ہے تو دوسری طرف انتہائی غیر سنجیدہ و سیاسی عدم بلوغت کی حامل کچھ سیاسی شخصیات ہیں کہ جن کا محور و مرکز ہی فقط عمران خان کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا ہے،اسے نا اہل کروانا ہے،اس کیلئے خواہ انہیں قانون کی دھجیاں بکھیرنا پڑیں ،وہ ہر حد سے گذرنے کیلئے تیار و آمادہ ہیں۔ان غیر قانونی اقدامات سے داد رسی کیلئے ہر پاکستانی شہری کی آخری امید عدالتوں سے وابستہ ہے لیکن بدقسمتی سے کئی ایک معاملات میں عدلیہ کا کردار بعینہ ایسا نہیں جس سے یہ کہا جا سکے کہ واقعتاً عدلیہ کی نظر میں ہر پاکستانی شہری بلا امتیاز ،ایک ہی طرح کے قانون کا سامنا کر رہا ہے۔مثلاً کچھ سیاسی شخصیات کیلئے قانون میں اتنی گنجائش موجود ہوتی ہے یا معزز عدلیہ کے منصفوں کی ذاتی صوابدید ایسے عودآتی ہے کہ حکومتوں سے ان کی جان کی ضمانت طلب کی جاتی ہے بصورت دیگر انہیں فوری علاج کی غرض سے رہا کرنے کا حکم جاری کیا جاتا ہے،ممکنہ طور پرحالات وواقعات کے پس منظر میںایسے کسی بھی فیصلے کے پیچھے معزز جج پر نادیدہ دباؤ کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، دوسری طرف ایک سیاسی شخصیت پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے اور وزیرداخلہ بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انہیں جان کا خطرہ ہے اور اس خطرے کے پیش نظر ایک عدالت میں پیش نہ ہونے پر ،کہ ا س عدالت میں پیشی کے موقع پردوبارہ قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے، ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے جاتے ہیں۔ بات صرف ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کرنے تک رہتی تو بھی قابل قبول ہو سکتی تھی، عدالت حالات وو اقعات کا جائزہ لے کر اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے،پیش نہ ہونے کی استدعا منظور کر سکتی تھی یا کوئی متبادل انتظام بھی کیا جا سکتا تھا لیکن ان وارنٹس پر عمل درآمد ضروری سمجھا گیا اور ہر صورت عمران خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا،اسے قانونی حکم سمجھا جائے یا ذاتی یا دباء کا نتیجہ،فیصلہ عوام پر ہے۔بہرکیف ان وارنٹس کو وصول کرنے کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا،وہ بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ عموماً ایسے وارنٹس کو وصول کروانے کیلئے چند افراد کی نفری کافی سمجھی جاتی ہے لیکن زمان پارک پر ان وارنٹس کو وصول کروانے کیلئے پولیس کی بھاری نفری باقاعدہ پیش قدمی کرتی ہوئی نظر آئی،جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی۔اس پیش قدمی کا مقصد کیا تھا؟ اس سے کیا حاصل کرنا مقصود تھا اور کیا وہ مقصد حاصل ہو گیا؟یہ سوال انتہائی اہم ہیں بظاہر اس پیش قدمی کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ عوام کے سامنے عمران خان کی تضحیک کی جائے،یہ دکھایا جائے کہ عمران قانون کی بالادستی کاجو دعویٰ کرتے ہیں،وہ خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے،بالفرض اگر اس مقصد کو تسلیم کر لیا جائے تو کیا یہ مقصد حاصل ہوا؟اس کا جواب کسی بھی صورت مثبت میں نہیں نکلا بلکہ الٹا عوام میں یہ تاثر گیا ہے کہ حکومت عمران خان کوگھٹنوں پر لانے یا اپنی چہیتی سیاسی شخصیات کی خواہش پوری کرنے کی خاطر یہ سب کر رہی ہے۔دوسرا مقصد وہ ہے جس کا اظہار عمران خان اور ان کے رفقاء کر رہے ہیں کہ عمران خان کو گرفتار کرکے ان کے ساتھ وہی نازیبا و ناروا سلوک کرنا مقصود تھا جو شہباز گل اور اعظم سواتی کے ساتھ کیا گیا تھا،ننگی آڈیو و ویڈیو جاری کرنے والے کارخانوں کے مالکان کی یہ ہوس پرستی نجانے کیوں ختم ہونے میں نہیں آرہی اور وہ ہر مخالف کو ننگا کرکے نجانے کیا تلاش کررہے ہیں،لہٰذا عمران خان کے گرفتاری نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے۔
البتہ اس مشق میں دو چیزیں واضح ہو گئی ہیں کہ اس وقت عمران خان بظاہر حقیقی آزادی کیلئےسب سے محاذ آرائی کر چکا ہے اور حکومت عمران خان پر چڑھائی کرنے کے باوجود اسے فی الوقت گرفتار نہ کرکے، حکومتی رٹ کو شرمندہ کروانے کا باعث بنی ہے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ صرف دکھاوا ہو اور بعد ازاں حکومت اپنی پوری طاقت استعمال کر کے رٹ قائم کرلے بہرحال یہ حقیقت ہے کہ حکومتی رٹ بہرحال قائم رہنی چاہیے تا کہ ریاست کے وجود کی حیثیت برقرا ررہے البتہ اگر واقعتاً عمران خان کے کارکنان نے حکومت کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے، یاقانون نافذ کرنے والوں نے عوام پر براہ راست گولی چلانے سے انکار کیا ہے، یا اس طرح کے غیر قانونی عمل سے معذوری ظاہر کی ہے،تو یہ ایک دوسرا منظر نامہ ہے کہ سویلین ادارے سمجھ رہے کہ عوام کو دبانے کیلئے ہمیشہ ان کے کندھے استعمال ہوتے رہے ہیں اور ان کی ساکھ کو عوام میں متاثر کیا جاتا رہا ہے۔اس منظر نامے سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ طاقتوروں کے ہاتھ سے طاقت بمثل ریت پھسلتی نظر آ رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button