CM RizwanColumn

درست اور غلط معلومات کی جنگ ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

درست اور غلط معلومات کی جنگ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں الزامات ثابت ہونے پر سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ ایسے فیصلے کی زد میں کوئی اور سابق یا موجودہ سربراہ حکومت یا عہدیدار ہوتا تو اب تک یہ تمام سزائیں بھگت رہا ہوتا مگر موصوف چونکہ جنوبی ایشیا میں برپا پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کے پاکستان میں غیر اعلانیہ سپہ سالار ہیں اس لیے ان کے خلاف آج تک اس سزا کا نفاذ تو درکنار انہوں نے آج تک اس عدالت میں پیش ہونے کا تکلف نہیں کیا جہاں یہ کیس آج کل زیر سماعت ہے اور یہ سہولت وہ صرف اسی ابلاغی حربے کے ذریعے حاصل کر رہے ہیں جس کے وہ اور ان کے مداح ماہر عامل ہیں، کیونکہ پہلے دن سے ہی یہ سب مل کر کہہ رہے ہیں کہ ہم پر یہ الزام ٹھیک ہے لیکن جو دوسرے ان کے مخالفین ایسے الزامات کی زد میں ہیں پہلے ان کے خلاف تو کارروائی کرو بعد میں ہم بھی دیکھ لیں گے یعنی جو لوگ اب برسراقتدار ہیں اور ان کے خلاف تھوڑا بہت احتساب کرنے کا آغاز کر چکے ہیں ان کو اقتدار سے علیحدہ کرو تو پھر ظاہر ہے یہ اپنی ابلاغی جنگ کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے اور پہلے جیسا تماشا لگا کر ملک کو اس انجام تک پہنچا دیں گے جس کا معاوضہ یہ ساڑھے تین سالہ اقتدار کی صورت میں ایڈوانس پکڑ چکے ہیں حالانکہ پاکستان کے تین سابق حکمرانوں کو اس وقت توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا ہے۔ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری شامل ہیں اور توشہ خانہ سے قیمتی کاروں سے متعلق خلاف ضابطہ خریداری پر نیب کا وہ خاص ریفرنس بن گیا ہے جس میں ملک کی ان دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر ملی بھگت کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں ایک ہی ریفرنس میں ملزم نامزد کر دیا گیا ہے۔ نیب ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے قوانین میں نرمی پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اس مقدمے میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کئے تھے۔ ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 ‘Li’ 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے میں ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔ نیب نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی جبکہ یہ منی لانڈرنگ کا الزام غلط ثابت ہو چکاہے۔ ریفرنس کے مطابق آصف زرداری یہ گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں۔
ہر ملزم چور اپنی چوری کا حساب دینے کا پابند ہوتا ہے جبکہ عمران خان فرماتے ہیں کہ پہلے سارے ملک کے دیگر چوروں کا احتساب کرو اور بعد ازاں اگر میں چاہوں تو میرا حساب شروع کر لینا۔ اس وقت صرف ایک ہی یہ توشہ خانہ کیس ہے جس میں عمران کے ناقابل ضمانت وارنٹ موجود ہیں اور واحد جج ظفر اقبال اپنی عدالت کا تقدس اور تحکم برقرار رکھنے پر مصر ہیں۔ یہ وہی کیس ہے جس کی سماعت کے دوران جاری ہونے والے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری لے کر اسلام آباد پولیس کے اہلکار زمان پارک لاہور میں عمران کی رہائش گاہ کے باہر پہنچے اور پھر ملکی تاریخ میں وہ سب پہلی بار ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس موقع پر عمران خان کے حامیوں نے آنے والے پولیس اہلکاروں اور افسران کی ایسی درگت بنائی کہ 33 پولیس اہلکار اور ایک پی ٹی آئی مجاہد زخمی ہوا۔ یاد رہے کہ توشہ خانہ سے متعلق یہ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد کی ضلعی عدالت بھیجا تھا جہاں سیشن جج ظفر اقبال اس مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ سال 2022 میں قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے توشہ خانہ سکینڈل کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اے، تریسٹھ اے اور آرٹیکل 223 کے تحت عمران خان کی نااہلی کا ریفرنس بھیجا تھا۔ اسی برس 22 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘عمران خان نے اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات سے متعلق جمع کروائے گئے فارمز میں جھوٹا بیان اور غلط ڈیکلیریشن جمع کرائی ہے، اس فیصلے کے ایک ماہ بعد اسلام آباد کی ایک سیشن کورٹ نے عمران خان کو طلبی نوٹس بھیجا۔ یہ نوٹس الیکشن کمیشن کی جانب سے سیشن کورٹ کو توشہ خانہ ریفرنس موصول ہونے کے بعد بھیجا گیا اور یوں عمران خان کے خلاف ٹرائل کا آغاز ہوا۔ اس ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ عمران خان نے جان بوجھ کر حقائق چھپائے اور اپنے اثاثہ جات کا غلط حلف نامہ جمع کرایا۔ کس قدر صاف شفاف اور سیدھا سادہ دروغ گوئی کا کیس ہے مگر سچ کو بار بار جھوٹ بول کر جھوٹ بنا دیا گیا ہے اور عمران خان روزانہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ایک مزاحیہ کیس ہے۔ بہر حال عمران خان گزشتہ سال تین نومبر کو مبینہ طور پر ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد لاہور میں مقیم رہے اور اس دوران تمام مقدمات میں عدالتوں میں حاضری سے استثنیٰ حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد بھی عمران خان بار بار طلبی کے احکامات کے باوجود عدالت میں پیش نہ ہوئے جس پر انہیں 15 دسمبر 2022 کو ایک بار پھر نوٹس بھیجا گیا کہ ان کے خلاف نو جنوری 2023 کو مبینہ طور پر کرپٹ پریکٹسز کے الزام میں ضابطہ فوجداری کے تحت کریمینل پروسیڈنگز کا آغاز کیا جائے گا، تاہم پہلے عمران خان خرابی صحت کی بنیاد پر اس مقدمے میں مسلسل غیر حاضر رہے اور ان کے وکلا کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں دائر کی جاتی رہیں۔ عمران خان کے وکلا کی استدعا پر عدالت نے عمران خان کو نو جنوری کو طبی بنیادوں پر استثنیٰ دیا اور کہا گیا کہ وہ اگلی پیشی 31 جنوری کو عدالت میں حاضری یقینی بنائیں تاہم وہ 31 جنوری کو بھی پیش نہ ہوئے۔ ان کی عبوری ضمانت میں 15 فروری تک توسیع کی گئی اور عدالت نے حکم دیا کہ وہ سات فروری کو عدالت میں پیش ہوں تاکہ ان پر فرد جرم عائد کی جا سکے۔ عمران خان کو ایک بار پھر طبی بنیادوں پر عدالت نے حاضری سے استثنیٰ دیا اور یوں سات فروری کو بھی ان کی عدم حاضری کے باعث ان پر فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔ فرد جرم کیلئے عمران خان کو 20 فروری کو عدالت نے طلب کیا تاہم وہ ایک بار پھر عدالت میں پیش نہ ہوئے جس کے بعد 28 فروری کی تاریخ مقرر کی گئی مگر ایک بار پھر پیشی نہ ہونے پر بالآخر عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے۔ واضح رہے کہ عمران خان 28 فروری کو اسلام آباد میں ہائیکورٹ سمیت دو دیگر عدالتوں میں پیش ہوئے تھے تاہم وہ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی ضلعی عدالت پیش نہ ہوئے اور یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں اس عدالت کے قریب جان سے ماردیئے جانے کی مخبری ہوئی ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے عمران خان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سات مارچ کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالتی احکامات پر پانچ مارچ کو پولیس ان کے وارنٹ گرفتاری لے کر ان کی لاہور زمان پارک میں رہائش گاہ پہنچی تاہم انہیں پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز نے پولیس کو بتایا کہ عمران خان رہائش گاہ پر موجود ہی نہیں، جس کے بعد پولیس گرفتاری کا آپریشن معطل کر کے واپس اسلام آباد روانہ ہو گئی۔ چھ مارچ کو عمران خان کے وکلا نے سیشن کورٹ اسلام آباد سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے جائیں۔ تاہم یہ درخواست رد کر دی گئی۔ سات مارچ کو عمران خان کے وکلا نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی منسوخی نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف اسلام ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں عارضی ریلیف دیتے ہوئے یہ وارنٹ 13 مارچ تک معطل کیے اور انہیں 13 مارچ کو عدالت میں حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا لیکن عمران خان 13 مارچ کو بھی سیشن کورٹ میں پیش نہ ہوئے اور یوں ایک بار پھر ان پر فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔ عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے اور پولیس کو حکم دیا کہ انہیں گرفتار کر کے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ پولیس عدالت کا حکم نامہ لے کر 14 مارچ کو زمان پارک پہنچی اور پی ٹی آئی کے فساد پر آمادہ کارکنان کے ساتھ تصادم ہوا۔ اس دوران عمران خان کا موقف یہ رہا ہے کہ ان پر ایک بار قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے جبکہ ان کی اطلاعات کے مطابق ان پر دوبارہ حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنی تقاریر میں بھی انہوں نے متعدد مرتبہ یہ استدعا کی ہے کہ انہیں ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔ ان کا یہ بھی موقف رہا کہ حکومت نے مجھے گرفتار کر کے میرے ساتھ وہ کرنا تھا جو اعظم سواتی اور شہباز گل کے ساتھ کیا تھا۔ہر بار نیا موقف اختیار کر کے عمران خان گویا سچ کے مقابلے میں جھوٹی معلومات کی دوغلی ابلاغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے اثرات یہ ہیں کہ بعض سادہ ذہن لوگ ان کی خاطر مرنے مارنے پر آمادہ ہو چکے ہیں اور ان کے اسلامی ٹچ کی وجہ سے ان کے بعض مداح تو ان کی حمایت میں مل جانے والی موت کو بھی اب حیات قرار دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button