ColumnZameer Afaqi

مہنگائی تاریخ کی بُلند ترین سطح پر ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

مہنگائی تاریخ کی بُلند ترین سطح پر

اگر اس وقت پاکستان کی عوام کا کوئی سب سے بڑا مسئلہ بڑی شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے تو وہ ہے ان کیلئے باعزت زندگی کے راستوں کا بند ہونا،مہنگائی گزشتہ حکومتوں میں بھی ہوتی رہی ہے لیکن اس قدر سفاک مہنگائی اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں کبھی اس ملک کے عوام نے نہیں دیکھی جو بدن سے گوشت اترنے اور خون کی روانی کو روکنے کے مترادف ہے ہر سانس گراں بار ہوئی جارہی ہے لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں ۔تیل سے لیکر ڈالر تک، ادویات سے لیکر نان روٹی تک، گیس سے لیکربجلی تک، گاڑی سے لیکرسائیکل تک، تعلیم سے لیکرصحت تک، انصاف سے لیکر راشن تک، کرایوں سے لیکرسفر تک، پانی سے لیکر مشروب تک، سبزی سے لیکرگوشت تک،کپڑوں سے لیکر جوتوں تک ہرچیز مہنگی اور اس پر مستزاد ریاستی اہلکار عوام کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ چکے ہیں ایک طرف ٹیکسوں کی بھر مار ہے تو دوسری طرف جس کے ہاتھ میں جتنا اختیار ہے وہ اس کا اطلاق عوام پر کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے جس کی ایک مثال ٹریفک پولیس بھی ہے جس کا اس وقت صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ ہر آتے جاتے کا چالان کرنا وجہ کوئی نہ بھی ہو تب بھی چالان اور جب سے لاہور ہائی کورٹ نے ہیلمٹ کی پابندی لازمی قرار دی ہے ٹریفک وارڈن کی چاندی ہو چکی ہے لاہور کے تمام وارڈن اپنی اصل ڈیوٹی ٹریفک کی روانی کو برقار رکھنا شہریوں کی مشکلات کو کم کرنا بھول کر صرف اور صرف دھڑا دھڑ چالان کئے جارہی ہے جبکہ لاہور میں گزشتہ کچھ عرصے سے ٹریفک کی بدترین صورت حال ہے جس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں اسی طرح ڈولفن فورس ہر گلی محلے میں گھومتی نظر آتی ہے جس کا سب سے آسان ہدف بچے اور بغیر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل سوار ہیں اور اگر کوئی ان سے سوال کر بیٹھے تو سوال کرنے والے کو نشان عبرت بنانے کیلئے مقدمات قائم کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں یہ وہ ادارے ہیں جنہیں عوام دوست ہونا چاہیے لیکن ہر سرکاری ادارہ عوام دشمنی میں اپنا کردار ادا کرتا نظرآتا ہے آپ کسی سرکاری محکمے میں چلے جائیں آپ کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ کام نہ کرنے کے پیسے لیتے ہیں ۔
اب یہی دیکھ لیجیے اس وقت دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھا جارہا ہے لیکن پاکستان میں سب کچھ الٹ ہو رہا ہے یہاں حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے جتنی بھی حکومتی پراڈکٹ ہیں یا جو اس کے دائرہ کار میں آتی ہیں ان کی قیمتیں بڑھا دیتی ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ جاتی ہے اس آگ میں جلتا صرف عام آدمی ہے۔ حکومت نے گزشتہ نو ماہ میں پٹرول کی قیمت میں سب سے زیادہ اضافہ اس بار کرتے ہوئے یکم اپریل سے تمام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پھر اضافہ کردیا ہے جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوتی جا رہی ہے ۔ اس فیصلے کے بعد عوام کا کہنا ہے کہ پٹرول بم گراتے وقت حکومت کو غریب آدمی کا ذرا خیال نہ رہا۔ کئی صارفین وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کی ماضی کی ٹویٹس کو شیئر کر رہے ہیں جن میں انہوں نے اس وقت کی حکومت پر پٹرول کی قیمتیں بڑھانے پر تنقید کی تھی لوگ تو یہاں تک کہ رہے ہیں کہ اگر حکومتی ذمہ داروں نے قر ضوں کے ساتھ پٹرول کے اضافے کا دفاع کرنا ہے توجب آپ پہلے بیان دے رہے تھے تب آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آنے والے حالات کیا ہونے ہیں۔ اگر آپ بھی سیاسی بیان بازی ہی کرتے رہے ہیں تو آپ میں اور دیگر جماعتوں میں فرق کیا ہے۔ لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ سب حساب کتاب جو پچھلی حکومت کے ساتھ کیا کرتی تھی پٹرول کی قیمت کے حوالے سے، وہ حساب کتاب کے اوراق کو آگ لگ گئی ہے یا کسی نے چُرالیے ہیں؟
دوسری جانب روپے کی قدر میں تیزی سے کمی نے جہاں صارفین پر اثر ڈالا وہی گزشتہ ماہ توانائی کی قیمتیں 5 برسوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور ملک میں اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لینے والے حساس پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) کے مطابق مختصر مدتی مہنگائی سال بہ سال کی بنیاد پر 16 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث تاریخ کی بلند ترین سطح 45.64 فیصد پر پہنچ گئی۔حساس قیمت انڈیکس میں مزید اضافے کے خدشات ہیں کیونکہ روپے کی قدر میں کمی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں، جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے اور توانائی کی بلند قیمتوں کا مکمل اثر ابھی تک سرکاری اعداد و شمار میں ظاہر نہیں ہوا، طلب میں اضافے کے سبب اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود کو بڑھا کر 20 فیصد کرنا، زیادہ تر اشیا پر جنرل سیلز کو 18 فیصد کرنا جبکہ 800 سے زائد درآمدی غذائی اور غیر غذائی اشیا پر اسے 25 فیصد کرنے سے خوردہ قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جو مرے کو مارے شامدار کے مترداف ہوگا۔ایک سوال جو اب تواتر سے سامنے آ رہا ہے کہ کیا پاکستان میں لوگوں کے گھروں میں تیل کے کنوئیں نکل آئے ہیں یا بڑے لوگوں کی طرح ان کی بھی لاٹریاں نکل رہی ہیں جو اس قدار جاں لیوا مہنگائی کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا؟ حکومت کو خدا خوف کرنا چاہیے اور اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب بددعا دینے والے ہاتھ پتھر اٹھا نے پر مجبور ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button