Editorial

پہل کون کرے گا؟

پہل کون کرے گا؟

ایک بار پھر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ملک کو درپیش چیلنجوں سے نکالنے کے لیے تمام سیاسی قیادت کو مل بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا،پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف کرکے مل بیٹھ کر فیصلے کرکے اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا، قومی اور عوامی مفاد کو دائو پر نہیں لگنے دیں گے۔سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف نے بھی ایسی ہی بات کہی ہے کہ ملکی مفادات کے لیے کسی سے بھی بات کرنے اور اس طرف ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ دونوں شخصیات دراصل حزب اقتدار اور حزب مخالف ہیں پس سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب دونوں ہی شخصیات وطن عزیز کو درپیش بحرانوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں تو بارہا دونوں اطراف سے یہی پیشکش ہونے کے باوجود ابتک کیوں پیش رفت نہیں ہوئی اور پیش رفت نہ ہونے کی کیاوجوہات ہیں۔ ہر معاشرے میں امن و سکون،ترقی و خوش حالی کے لیے سیاسی استحکام کو لازم قرار دیاجاتا ہے،دونوں شخصیات یہ حقیقت بخوبی سمجھتی ہیں مگر معاملہ بہتری کی جانب بڑھنے کی بجائے زیادہ خراب ہورہا ہے تو اِس کی وجوہات بھی بلاشبہ دونوں قائدین بخوبی جانتے ہیں بہرکیف حکومت یا سیاسی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے سے قاصر ہوجائیں تو جہاں عامۃ الناس میں بے یقینی اور بدنظمی نظر آتی ہے وہیں انتشار پھیلانے والے بھی سرگرم ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ حالات اُن کے مفادات کے حصول کے لیے سازگار ہوتے ہیں اور ایسا ہی اب دیکھنے کو آرہا ہے۔ پاکستان کو اعزاز حاصل ہے کہ امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا تبھی بغیر خون خرابے کے امریکہ کا افغانستان سے انخلا ممکن ہوا۔ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کم کرنے کی کوشش کی اور اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر دہائیوں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے، کیا ہم نے ماضی میں چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے اہم کردار ادا نہیں کیا تھا؟ بلاشبہ یہ اہم فریضہ ہم ادا کرچکے ہیں مگر جب بھی داخلی حالات کی بات ہوتی ہے ، سیاسی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن نظر آتی ہیں، کوئی بھی ایک قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ ایسی صورت حال میں اُکسانے اور بھڑکانے والے معاملات کو زیادہ پیچیدہ بناتے
ہیں نتیجتاً ایک سے بڑھ کر ایک نیا بحران سامنے آتا ہے کیونکہ اِن کے پیچھے چھپے عناصر حکومت اور اداروں سے زیادہ گہرائی کے ساتھ حالات پر کڑی نظر رکھتے ہیں لہٰذا وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہتے ہیں، اِس لیے سیاسی استحکام ہو اور تمام ادارے آئین میں متعین کردہ اپنی اپنی حدود میں رہیں اور ہر فرد دوسرے کے پیچھے چھپنے کی بجائے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرے تو معاشرے کو مثالی بننے سے کوئی نہیں روک سکتامگر جہاں بے یقینی اور بدنظمی پیدا ہوجائے، وہاں عامۃ الناس بے سمت سرپٹ دوڑنے کو ہی درست فیصلہ گردانتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف اور دیگر اہم حکومتی ذعما میثاق معیشت اور میثاق جمہوریت کی ایک سے زائد بار دعوت نہیں دے چکے؟ کیا موجودہ حکومت وطن عزیز کو درپیش داخلی اورخارجی چیلنجز پر تمام سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعادہ اور اعلان نہیں کرچکی؟ لیکن کیا آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا اور سیاسی کشیدگی ختم ہوگئی؟ قطعی نہیں ، کیونکہ صرف پیشکش کرنا ہی کافی نہیں ہوتا اِس کے لیے سازگار ماحول اور ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا قائم کرنا لازم ہوتا ہے، عمران خان موجودہ اتحادی حکومت کے کسی رہنما کے ساتھ بات چیت کرنے کو تیار نہیں لیکن وہ پھر بھی بار بار پیشکش کررہے ہیں، جب دونوں ہی سیاسی فریق مل بیٹھنے کو تیار نہیں تو ایسی صورت میں کون ان کو ایک میز پر لائے گا جس میز پر میثاق معیشت کیا جانا ہےحالانکہ پوری قوم چاہتی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں سیاسی، معاشی اور سکیورٹی صورت حال پر ایک پیج پر ہوں اور ہم بھی ہمیشہ یہی استدعا کرتے آئے ہیں کہ خدارا ! ملک و قوم کے لیے متحد ہوجائیں اور مل کر ہی اِن چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی راہ نکالیں کیونکہ ہم اِس گہری دلدل میں جتنا دھنس چکے ہیں، کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں کہ وہ اِس سے ملک و قوم کو نکالے، لیکن سیاسی عدم برداشت اور عدم استحکام کی ایسی فضا قائم ہے جو کسی بھی منتخب حکومت کو پوری توجہ اِن مسائل اور بحرانوں پر مرکوز کرنے نہیں دیتی،درپیش چیلنجز سیاسی استحکام اور رواداری کا تقاضا کرتے ہیں مگر اِس کے لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی خلوص نیت کے ساتھ سنجیدگی ضروری ہے، مگر جیسے حالات اور سیاسی رسہ کشی ہورہی ہے، کیسے ممکن ہے کہ سیاست دان 75 سال سیاسی حربے ترک کرکے ملک و قوم کو درپیش سنگین بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک میز پر آجائیں، بہرکیف معجزات اسی کرہ ارض پر رونما ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ یہ معجزہ بھی ہوجائے مگر اِس کے لیے پہل کون کرے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button