Editorial

سنگین بحران اور ترجیحات

وطن عزیز کو درپیش بحرانوں میں سب سے بڑا سیاسی بحران ہے، سیاسی بحران کی جڑیں اِس قدر گہری اور وسعت اِس قدر زیادہ ہے کہ دیگر بحران اِس کے سامنے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈی فالٹ کے خطرات، تاریخ کی بلند ترین مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی، تعلیم، صحت، ترقی، بدعنوانی، معاشرتی مسائل، انتہا پسندی اِس سیاسی بحران کے سامنے بہت چھوٹے معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ ہمہ وقت سیاست ہی ترجیح اور ضرورت کے طور پر زیر بحث نظر آتی ہے، ہر قدم سیاسی مخالفین کے خلاف، یہاں تک کہ سوچ اور حربے بھی۔ درپیش بحرانوں اور اِن کے سدباب کے لیے اقدامات اور سنجیدگی ایک طرف سیاسی دائو پیچ دوسری طرف لیکن ترجیح۔ باہمی تنائو بڑھانے سے بڑھ رہا ہے اور کسی بھی طرف سے معاملات کو ٹھیک کرنے اور دبائو کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آرہیں تو پھر سب ٹھیک کیسے ہوگا اور زندگی معمول پر کیسے آئے گی؟ ہر ادارے کو آئین میں تفویض ذمہ داریوں کے مطابق کرنا ہے، بلاشبہ ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن جن کے پاس زیادہ اختیارات ہیں اور وہ سب کچھ ٹھیک یا خلط ملط کرنے کا اختیار رکھتے ہیں دراصل انہوں نے ہی سیاسی بحران کی جگہ اصل بحرانوں کو ترجیح بناناہے مگر کب؟ جن اداروں نے جرائم پیشہ افراد کو نشان عبرت بنانا ہے وہ سیاست دانوں کے پیچھے پڑے ہیں، جنہوں نے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے وہ ازخود راہیں تلاش کرکے دے رہےہیں، جنہوں نے تعلیم کے شعبے کو عالمی معیار کا بنانا ہے اُن کی ڈگری مشکوک ہے، جس نے صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنی ہیں وہ خود علیل ہیںغرضیکہ ہر بحران اِس لیے بے قابو ہے کیونکہ عارضی اقدامات اب اِسے قابو کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہیں۔ سیاسی افراتفری ماضی کی طرح اب بھی ہے حالانکہ شخصیات اور نظریات اب مختلف ہیں لیکن وہ طرز سیاست اور ترجیحات ہیں جنہوں نے ملک و قوم کو ہمیشہ کی طرح آزمائش میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔ قوموں نے سیاسی استحکام، معیشت تعلیم و صحت کو اپنی ترجیح بنایا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اقوام عالم کو اِن میدانوں میں للکارنے لگے لیکن ہم آج بھی ایک دوسرے کو للکانے اور نیچا دکھانے کو سیاست سمجھ رہے ہیں اسی لیے ہم اِن میدانوں میں کہیں شمار نہیں ہوتے۔ ملک و قوم کے حالات بہتر کرنے کی خواہش ہر پاکستانی کے دل میں مچلتی ہے لیکن داخلی حالات، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے وہ بے بس ہے اور اگر کوئی اِس مسائل سے آزاد ہے تو اِس کو نظام کی خرابیاں چلنے نہیںدیتیں لہٰذا وہ یا تو دبک کر بیٹھ جاتا ہے یا کہیں اور چلاجاتا ہے۔ کوئی بھی قد آور اپنی غلطیاں تسلیم کرکے تلافی کرنے کا خواہشمند نہیں البتہ کمالِ مہارت سے دوسرے کی غلطیاں لمحہ بہ لمحہ سامنے لانا اپنا حق اور فریضہ سمجھتا ہے۔ سبھی دانا مسائل کی حقیقی وجوہات سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن اِن کو دور کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں شاید ذہنی طور پر تسلیم کرلیاگیا ہے کہ ملک و قوم کو مقدر یہی ہے جو اِن کو مل رہا ہے اور اُن کے اپنے مقدر میں بھی یہی ہے کہ وہ بحرانوں کے شکار ملک اور اُس کے عوام کے حکمران بنیں اور اُن کی نسلیں اِس روایت کو آگے بھی نسل در نسل چلائیں ۔ ہم جو کررہے ہیں اِس کے نتائج کل ہمارے آگے آئیں گے، ہمارے اچھے اقدام ہمیں شہرت کی بلندی پر پہنچائیں گے جبکہ غلطیاں ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوکر سامنے آئیں گی مگر پھر بھی مقابلہ بازی کی فضا ختم نہیں ہورہی۔ حقیقی مسائل اور بحرانوں کی طر ف متوجہ نہیں ہوا جارہا کیونکہ یہ ملک و قوم کے مسائل ہیں ہمارے نہیں ہیں؟عامۃ الناس کو بے خبر، انجان اور معصوم تبھی تک سمجھنا ٹھیک تھا جب تک سیاسی میدان میں اتنی تبدیلیاں اور وسعت نہیں تھی آج ذرائع ابلاغ اورسب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے ہر شہری اپنے مسائل پر بات کرتا ہے اور اِن کے ذمہ داروں کو ذمہ دار بھی ٹھہراتا ہے، لہٰذا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب حقیقی بحرانوں اور مسائل کو ہی ترجیح بنانے سے عام پاکستانی ہماری جانب متوجہ ہوں گے، اگر یہی روش برقرار رہی جو ماضی سے قطعی مختلف نہیں ہے تو اِس کے نتائج بھی ماضی سے مختلف برآمد نہیں ہوں گے، غلطیاں سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہیں، دھرانے کے لیے نہیں لیکن اگر پھربھی دھرائی جائیں تو نتائج کا منتظر بھی رہنا پڑتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button