ColumnMazhar Ch

محاذ آرائی کی سیاست .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

یوں تو عدم برداشت، سیاسی انتقام اور مخالفت برائے مخالفت کی سیاست پاکستان کے سیاسی نظام میں نئی چیز نہیں لیکن گذشتہ ایک دہائی کے دوران پنپنے والی محاذ آرائی پر مبنی سیاست کی زیادہ تر ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی بھر پور مخالفت کرنے والی جماعت پی ٹی آئی نے عوام کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ میثاق جمہوریت اصل میں دونوں جماعتوں کا ایک دوسرے کا احتساب نہ کرتے ہوئے باری باری کی سیاست کے تحفظ کو یقینی بنانے کا دوسرا نام تھا۔ 2013 میں بننے والی نواز شریف حکومت میں پی ٹی آئی نے پہلے دھاندلی ایشو اور بعد ازاں پاناما ایشو پر احتجاج اور دھرنوں کی سیاست سے حکومت کو عملی طور پر مفلوج کرکے ملک میں نوے کی دہائی کی احتجاجی سیاست کا احیاء کیا۔اس کے مقابلے میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل ہونے والی جوڑ توڑ کی سیاست اور سیاسی ہتھکنڈوں کو نون لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی نے مقتدر حلقوں کا اپنی منظور نظر جماعت کو حکومت دلانے کا طے شدہ منصوبہ قرار دیا۔ ان حالات میں تشکیل پانے والی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا سخت رویہ بعید از قیاس نہیں تھاتاہم اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے تحت کی جانے والی کارروائیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔دو سال بعدحالات نے اس وقت قدرے پلٹا کھایا جب ایک درجن کے قریب اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے تحریک شروع کرنے کا علان کیا۔پی ڈی ایم کا بنیادی مقصد حکومت پر دبائو بڑھانے کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی و انتخابی نظام میں ہر قسم کی مداخلت بند کرنے کا مطالبہ بھی تھا۔اس کے علاوہ پی ڈی ایم کے سات نکاتی ایکشن پلان میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوششوں سمیت قانون ساز اداروں کے اندر بیٹھ کر جدوجہد کرنے کا تذکرہ بھی شامل تھا ۔
دیکھا جائے تو پارلیمانی جمہوری نظام میںعدم اعتماد کے زریعے وزیراعظم یا حکومت کی تبدیلی حزب اختلاف کا حق ہے لیکن عمران خان کی جانب سے اپوزیشن کے اس حق کو تسلیم نہ کیے جانے سے ملکی سیاست میں سیاسی عدم برداشت میں تشویش ناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔تلخ حقائق یہ ہیں کہ عمران خان نہ تو اپنے سوا کسی کوتسلیم کرنے پر تیار ہیں اور نہ ہی وہ اپنی جماعت کے علاوہ کسی دوسری جماعت کی حکومت کو ماننے پر راضی ہیں۔کچھ لوگ عمران خان کی محاذآرائی پر مبنی سیاست کا جوازعدم اعتماد کو ٹھہراتے ہیں لیکن ایسے لوگوں سے کوئی پوچھنے والا ہو کہ 2013کے انتخابات کے بعد چار حلقوں سے شروع ہونے والا احتجاجی سلسلہ کہاں جا کر رکا تھا۔ فی الوقت عمران خان اور ان کے معتقدین ملک میں فوری الیکشن کے لیے احتجاج کیے جا رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر الیکشن کے بعدپی ٹی آئی وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آئی تو عمران اینڈ کمپنی پھر سڑکوں پر نکل آئے گی۔ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے اور مخالفت برائے مخالفت کی سیاست نوے کی دہائی میں بھی دیکھی گئی تھی لیکن موجودہ دور میں عمران خان نے’’ میں نہ مانوں‘‘اور ’’میرے سوا کوئی نہیں‘‘کی خطرناک سیاسی روایات کو جنم دیا ہے۔گذشتہ دوعام انتخابات کے نتائج کے مطابق عمران خان کی جماعت کو صرف ایک صوبے میں واضح اکثریت حاصل رہی ہے لیکن عمران خان نے نہ تو وفاق میں برسراقتدار رہتے ہوئے اس وقت کے مضبوط اپوزیشن اتحاد سے بات چیت کرنا گوارہ کیا اور نہ ہی وہ اب دیگر سیاسی اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرنے پر آمادہ ہیں۔اصل میں عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں سے نفرت پر رکھی ہے ۔عمران خان اپنے دور میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین کو بار بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچاتے رہے لیکن اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ کارکنوں کو مسلسل ڈھال کے طور پر استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ہمارے ملک میں ہر سیاسی رہنما کو سکیورٹی تھریٹ رہے ہیں لیکن عمران خان کے علاوہ کسی سیاسی رہنما نے سکیورٹی تھریٹ یا دیگر وجوہات کی بنا پر قانون اور انصاف کی بے توقیری نہیں کی۔عمران خان ایک طرف قانون کی حکمرانی کے بھاشن دیتے ہیں لیکن اپنی باری وہ کسی قانون اور آئین کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
ویسے تو عمران خان کا سیاسی کیریئر اس طرح کے تضادات سے بھر پور ہے لیکن مجھے کہنے دیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے کے لیے کارکنوں کو ڈھال بنا کر ایک اور غلط سیاسی روایت قائم کی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ جھوٹے سچے مقدمات میں جیل جانے والے سیاستدانوںسے بھری پڑی ہے۔بھٹو شہید سے لے کر بے نظیر تک اور نواز شریف سے لے کر مریم نواز تک سب جھوٹے سچے مقدمات میں جیل گئے۔زرداری صاحب تین مختلف ادوار میں دس سال سے زیادہ عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے لیکن انہوں نے کبھی گرفتاری سے بچنے کے لیے کارکنوں کو ڈھال بنانے جیسی گھٹیا روایت قائم کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ خان صاحب خدارا اپنی ذات کے سحر سے باہر نکل کر زمینی حقائق کا ادراک کریں۔آپ کی نرگسیت اور محاذآرائی پر مبنی سیاست ملک اور معاشرے کے لیے زہر سے کم نہیں۔سیاست اور جمہوریت میں’’ میں نہ مانوں‘‘یا ’’میرے سوا کوئی نہیں‘‘ جیسی ہٹ دھرمی اور بے لچک رویے کارگر نہیں ہوتے۔ سیاست میں سب کی بات سننا پڑتی ہے اور جمہوریت تو ہے ہی مل جل کر چلنے کا نام۔
نوے کی دہائی میں اس وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی پرمبنی سیاست کی وجہ سے اقتدار پر غیر جمہوری قوتوں کی گرفت مضبوط رہی تو حالیہ دور میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں جاری محاذ آرائی نے جمہوری و سول بالادستی کی منزل کو کئی دہائیاں آگے دھکیل دیا ہے ۔ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں کی مخالفت برائے مخالفت اور نفرت و دشمنی پر مبنی سیاست کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں نے اٹھایا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے مقتدرہ کی خوشامد اور اقتدار کے حصول کے بعد سیاسی مخالفین کی محاذ آرائی پر مبنی سیاست کو کاونٹر کرنے کے لیے مقتدرہ کی حمایت لینے پر مجبور ہیں۔سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما اگر ملک کو آگے لے جانے میں مخلص ہیں تو انہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور محاذ آرائی پر مبنی سیاست سے گریز کرتے ہوئے افہمام و تفہیم سے جمہوری و سول بالادستی کے راستے پر گامزن ہونا پڑے گا۔ ملک اور قوم کے ساتھ مذاق بہت ہو چکا، بھارت کے بعد بنگلہ دیش بھی ترقی و خوش حالی کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے لیکن ہماری مقتدرہ اور سیاسی جماعتیںابھی تک اقتدار کی رسہ کشی میں ہی مصروف ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button