ColumnTajamul Hussain Hashmi

خواب اور حقیقت .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

 

گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے حکمران قوم کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھانے کے ساتھ ساتھ یہ دعوے بھی کرتے رہے ہیں کہ ملک میں غربت میں کمی ہو رہی ہے مگرموجودہ حالات میں ملکی معیشت کو مہنگائی، بیرونی مالی دباؤ اور غیریقینی صورت حال کا سامنا ہے۔پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو پاکستان کی جامع ترقی میں جمود نظر آتا ہے۔ صرف ایوب خان کے دور حکومت کو معاشی استحکام کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ اسکی وجہ پاکستان کی معیشت کی بنیاد زراعت کی بہتری کیلئے اقدامات کیے گئے۔ پاکستان کی بنجر زمینوں کی آبادکاری کیلئے بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا ہی نہیں بنائے گئے بلکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کیلئے نئے بیج اور کھا د وغیرہ کیلئے بھی پلاننگ کی گئی۔ منگلا تر بیلا ڈیموں کی تعمیر کوئی عالمی مالیاتی اداروں کی پاکستان محبت نہ تھی بلکہ پاکستان کے تین مشرقی دریائوں کا 21 ملین ایکڑ فٹ پانی ہڑپنا تھا۔ دونوں بڑے ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کی سبز معیشت کیلئے پانی اور بجلی کی توانائی میسر آئی تو قومی معیشت نے بھر پور انگڑائی لی۔ دنیا کے ماہرین معاشیات پاکستان کو مستقبل کا ایشین ٹائیگر قرار دے رہے تھے۔ تربیلا ڈیم کے مکمل ہوتے ہی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے حکم دیا چنانچہ تربیلا ڈیم سے کنسٹرکشن مشینری فوری طور پر کالا باغ کے مقام پر پہنچا دی گئی ۔ اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھی ہر وقت ہو جاتی تو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے سے کوئی نہ روک سکتا تھا۔ پاکستان کی تیز رفتار ترقی دنیا کی بڑی سامراجی طاقتوں کے لیے کسی طور قابل قبول نہ تھی۔ ترقی کی اس رفتار کو روکنے کے لیے رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ کالا باغ ڈیم سمیت تمام آبی وسائل پر گویا خط تنسیخ کھینچ دی گئی۔ تربیلا ڈیم پراجیکٹ میں پانچ سرنگوں کے ذریعے بجلی پیدا کی جانی تھی مگر صرف پہلی سرنگ پر ایک ہزار میگا واٹ کے جنریٹرز نے کام شروع کیا تھا کہ عالمی بینک کی طرف سے قرض لینے کے شوقین حکام نے فرنس آئل پر چلنے والے 1292میگاواٹ کے جبکو پاور ہاؤس کو بھی شرف قبولیت بخشا۔ اسکے چھ سال بعد تھوک کے حساب سے پرائیویٹ بجلی گھروں نے پہلے واپڈا کو ذبح کیا اور پھر پاکستان کی معیشت کا ہی نہیں عزت وآبرو کا بھی جنازہ نکال دیا۔ اچھی گورننس کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر قیادت اور ادارے ڈلیور کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو اچھی گورننس کی امید رکھنا عبث ہے۔ اور جب صلاحیت کا یہ فقدان بدعنوانی کے ساتھ مل جائے تو بیڑا غرق سمجھئے ۔ وطن عزیز میں گورننس کی ناکامی کی بہت سی وجوہ تلاش کی جاسکتی ہیں ، مثلا اہمیت ، صلاحیت اور شفافیت کا فقدان، قانون کی عملداری نہ ہونا ، میرٹ اور اصول و ضوابط کو نظر انداز کیا جانا، طاقت کا غلط استعمال اور دولت کی ہوس ۔ کچھ قواعد وضوابطہ یقینا غلط ہو سکتے ہیں، لیکن اگر وہ قانونی طور پر موجود ہیں تو ان کا احترام بہر حال فرض ہے۔ اگر کھلے عام بار بار قانون کی خلاف ورزی کی جائے گی تو اچھی گورننس کی امید کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ یہ اسی بدعنوانی اور نا اہلی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں اچھی حکمرانی کی امید تقریباً ختم ہو چکی ہے اور یہ معاملہ پورے ملک کا ہے۔ ان تمام معاشی مشکلات کے باوجود اگر ہم اپنی تر جیحات کو درست کر لیں اور اپنے وسائل کو خصوصاً سماجی اور سرکاری شعبے میں بہترین طریقے سے استعمال میں لے آئیں تو ہم ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم کردارنجی شعبے کا ہوگا۔ تاریخ گواہی دے گی کہ جب بھی نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملا ہے، اس نے اپنا کردار مثبت اور تعمیری انداز میں ادا کیا ہے۔ تاہم بد عنوانی، مفادات کے ٹکراو، اچھی گورننس ، شفافیت اور احتساب کے فقدان کے باعث نجی شعبہ خاطر خواہ کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے ، مہنگائی کی شرح کے مزیدبڑھنے کا خدشہ ہے۔ حکومت وقت کو ضروری اور فوری اقدامات کرنا ہوں گے تا کہ وطن عزیز میں سیلاب زدہ علاقوں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے، زراعت میں بہتری کے لیے سستے بیج ،کھاد اور بجلی کی فراہمی ، سیلاب کے پانی کی وجہ سے زمین زیادہ پیداوار دیتی ہیں اگر فوری طور پر کسانوں کو یہ مراعات دی جاتی ہیں تو اگلے سال ہماری فصلیں پیداوار زیادہ دیں گی۔ بلند شرح سود جو معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے اس کو ختم ہونا چاہیے۔ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے۔ چنانچہ آب و ہوا، موسموں اور معیشت کے مختلف حصوں پر ان کے اثرات میں متوقع تبدیلیوںکے مطابق معیشت کی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہیں،اگر چہ ہم کاربن کے اخراج میں 2 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں ، لیکن اس کے منفی نتائج کے لحاظ سے اس کا نقصان ہم پر زیادہ ہے، ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے رہنما میثاق جمہوریت کی طرح میثاق پاکستان بھی کریں، مگر جب تک قیادت کے اندر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ والی سوچ پیدا نہیں ہوگی حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے، ہمیشہ کی طرح سیاسی نفرت، کھینچاتانی، انتقام، جھوٹ بوجہ جھوٹ، یہ سب کچھ سیاست نہیں ہے بھائی! ترقی یافتہ اقوام نے ایسے ترقی نہیں کی تھی۔ لیڈر کا ویژن ہی قوم کو آگے لیکر جاتا ہے یا پھر ویرانوں میں بھٹکاتا ہے، جن لیڈروں میں ویژن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اُن کی مثال شادی بیاہ پر کھانا برتانے والوں کی سی ہوتی ہے، جو جی میں آیا وہی کیا، بھائی ایسے ملک بھی نہیں چلتے، مگر اپ چلاکر دیکھ لیں۔75 سال سے یہ ملک آپ اور آپ کے بچوں کی تربیت گا ہ بنا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button