Editorial

داخلی حالات کے تقاضے !

لاہورہائیکورٹ نے پولیس کو زمان پارک میں آپریشن روکنے کا عبوری تحریری حکم جاری کیاہے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے تحریری حکم میں کہا ہے کہ عدالت کے علم میں لایا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے، اس معاملے کو دیکھتے ہوئے آئی جی کو فوری آپریشن روکنے کی ہدایت کی ہے۔لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے لیے پولیس آپریشن آج صبح 10 بجے تک روکنے کے تحریری حکم میں ہدایت کی کہ آئی جی پنجاب پولیس فورس کوزمان پارک سے فوری واپس بلائیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کے بعد پولیس اور دوسری فورسز پیچھے ہٹ گئیں جبکہ دوسری طرف سے بھی مزاحمت ختم کردی گئی مگر چوبیس گھنٹے کے دوران جو کچھ زمان پارک اور پھر ملک کے کم وبیش تمام چھوٹے اور بڑے شہروں میں مزاحمت اور اظہار یکجہتی کے نام پر ہوا، اِسے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے خوب تشہیر دی اور زمان پارک پر کم و بیش تمام پہلوئوں پر بحث کی گئی۔ زمان پارک میں جو کچھ ہوا اِس سے قومی وقار مجروح نہیں ہوا، ایسا تصور کرنا بھی ناانصافی ہے، ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے سکیورٹی فورسز اور مزاحمت کاروں کو آمنے سامنے دکھایا اور یہ مناظر سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونےکونے میں دیکھے گئے اور سوچ کے لوگوں نے اِن پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری مقصود تھی، وہ کتنا اہم اور پیچیدہ معاملہ تھا، جس میں اُنہیں بہرصورت گرفتار کرنا تھا، اِس پر ہم بات نہیں کرتے مگر یہ سوال تو اُٹھاسکتے ہیں کہ کیا موجودہ داخلی صورت حال میں ایسے اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور دشمن ہماری اِس ہیجانی کیفیت سے فائدہ نہیں اٹھائے گا؟ ایک روز قبل ہی پنجاب میں انتخابات کے موقع پر سکیورٹی فراہم کرنے کے معاملے پر چیف سیکرٹری اور آئی پنجاب نے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کے روبرو متفقہ موقف اختیار کیا تھا کہ ملک کی موجودہ مجموعی معاشی اور امن وامان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے30 اپریل کے الیکشن میں پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے بغیر فول پروف سکیورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی جبکہ چیف سیکرٹری پنجاب نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ان حالا ت میں انتخابات کرانا ممکن نہیں کیونکہ صرف الیکشن کروانا مقصود نہیں بلکہ صاف، شفاف الیکشن کا انعقاد ضروری ہے۔ وزارت دفاع کے حکام نے بھی چیف الیکشن کمشنر کے روبرو صرف کوئیک رسپانس موڈ کی حامی بھری تھی۔ آئی جی پنجاب نے موقف اختیار کیا تھا کہ پولیس کی تعیناتی صرف انتخابات کے دن تک محدود نہیں بلکہ عوام الناس کی سکیورٹی اور جرائم کے سدباب کے لیے ڈیوٹی دینا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔ اس وقت پولیس مردم شماری میں ڈیوٹی دینے والوں کو سکیورٹی فراہم کر رہی ہے جبکہ ماہ رمضان کے دوران مساجداور نمازیوں کی حفاظت کےلیے پولیس تعینات کی جائے گی۔ کچاکے علاقہ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف
پولیس کارروائی شروع کردی گئی ہے ۔جس کےلیے 4سے 5ماہ درکار ہونگے۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے سویلین افراد کی مردم شماری، امتحانات ، گندم کی خریداری اور ضمنی انتخابات میں مصروف کو جواز بنایا جبکہ سیکرٹری دفاع لیفٹنٹ جنرل (ر) حمود الزمان خان اور ایڈیشنل سیکرٹری دفاع میجر جنرل خرم سرفراز خان نے ملک کے موجودہ حالات ، سرحدوں اور اندرون ملک میں فوج کی تعیناتی پر کمیشن کو مکمل بریف کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ فوج اپنے بنیادی فرائض منصبی کو اہمیت دیتی ہے، جس میں سرحدوں اور ملک کی حفاظت انکی اولین ترجیح ہے۔ موجودہ ملکی حالات کی وجہ سے پاک فوج الیکشن ڈیوٹی کےلیے اس وقت دستیاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کا اثر فوج پر بھی ہے، اور یہ حکومت وقت کا فیصلہ ہوگا کہ وہ ان حالات کے پیش نظر فوج کو بنیادی فرائض منصبی کی انجام دہی تک محدود رکھتی ہے یا ثانوی فرائض یعنی الیکشن ڈیوٹی پر مامور کرتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ الیکشن ڈیوٹی کی صورت میں فوج کوئیک رسپانس فورس موڈ میں دستیاب کی جاسکتی ہے مگر ماضی کی طرح سٹیٹک موڈ میں ڈیوٹی سرانجام دینا ممکن نہیں۔ زمان پارک آپریشن کے لیے صوبہ بھر سے سکیورٹی فورسز اور نفری کو طلب کیاگیا لہٰذا ایک طرف ہم کہہ رہے ہیں کہ سکیورٹی فورسز اہم امور میں مصروف ہیں تو دوسری طرف صوبہ بھر سے سکیورٹی زمان پارک پہنچادی جاتی ہے۔ اِس اہم اور حساس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہمیں ہمہ وقت احتیاط کا پہلو اورقومی مفاد مدنظر رکھنا ہوگا لہٰذا محتاط اور دبے ہوئے الفاظ میں ہم یہی عرض کرسکتے ہیں کہ موجودہ داخلی حالات قطعی سیاسی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ہم پہلے ہی سیاسی انتشار کا شکار ہیں، معاشی حالات نے ملک کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو نہ صرف متاثرکیا ہے بلکہ عام پاکستانیوں کی کمر توڑ دی ہے، معاشی بحران سے باہر نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی، مگر اِس کے باوجود سیاسی تنائو اور کھینچاتانی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، چند روز قبل ایک سیاسی کارکن کی ایسے ہی صورت حال میں موت ہوئی ایک فریق اِس کو زیرحراست قتل جبکہ دوسرا ٹریفک حادثہ قرار دے رہا ہے، چند روز بعد ہی اِسی سلسلے میں دوبارہ سکیورٹی ادارے کارروائی کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں احتجاج کا دائرہ وسیع کردیا جاتا ہے، سیاسی قیادت کے درمیان تنائو بڑھ رہاہے اور ایسا کرنا صرف ہماری سیاست کا ہی طرہ ہے، ایک تیر سے دو شکار کرنے کا فن کوئی ہم سے سیکھے، مگر سب کچھ ٹھیک نہیں ہورہا، لوگ اپنے مسائل کی وجہ سے شدید اضطراب میں ہیں، اسی لیے معاشرے میں بے یقینی گہرے سائے پھیلارہی ہے، قوم مزید کسی بھی نوعیت کا اضطراب برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں لہٰذا ارباب اختیار کو زمینی صورت حال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ جب بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احتجاج کرنے والوں کے سامنے لایاجاتا ہے تو اُس صورت حال کا فائدہ وہ عناصر بھی اٹھاتے ہیں جو ہمیشہ انارکی اور عدم استحکام کے لیے ایسے مواقعوں کی تاک میں رہتے ہیں۔ معاشی بحرانوں کے شکار ملک میں عوام کی حالت ویسے ہی قابل رحم ہوتی ہے اورلوگ پائی پائی کے لیے پریشان ہوتے ہیں ایسے میں ہمیشہ سیاسی قیادت کو حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ہوتے ہیں تاکہ ملک دشمن عناصر اُن داخلی حالات سے فائدہ اٹھاکر اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کرسکیں۔ جب سے مرکز میں اتحادی حکومت قائم ہوئی ہے کوئی ایک دن قوم کو ایسا دیکھنے کو نہیں ملا جس کو استحکام، سکون اور اطمینان والا دن قرار دیا جاسکے، چونکے اتحادی جماعتوں نے سابق حکومت کو قریباً پونے چار سال دبائو کا شکار رکھا لہٰذا جب سے حکومت تبدیل ہوئی ہے اب انہیں بھی ایسے ہی دبائو کا شکار کیا جارہا ہے، یعنی وہی روایت دھرائی جارہی ہے جو ان کے خلاف تھی، غرضیکہ وہی سب کچھ ہورہا ہے جو ماضی کی سیاست میں ہوتا آیا اوربعد میں کئی مواقعوں پر پشیمانی ظاہر کرتے ہوئے اُن واقعات کو افسوس ناک قرار دیا مگر آج بھی وہی ہورہا ہے جس پر پشیمانی ظاہر کی جاچکی ہے پس کیوں اچھی سیاسی روایات قائم کرتے ہوئےماضی کی انتقامی سیاست اور مخاصمت سے پیچھا نہیں چھڑایاجارہا، بلاشبہ دنیا ختم ہونے نہیں جارہی اور ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ والی مثال بھی ہمیشہ ہمارے ہر معاملے میں درست نظر آتی ہے، پچھلی حکومت کے دور میں نیب اور دیگر اداروں میں کیسز بنائے گئے موجودہ حکومت کے دور میں بھی یہ روایت قائم دائم ہے، تب بھی پکڑ دھکڑ ہوتی تھی اب بھی ہورہی ہے، تب بھی ریاست کی رٹ کے نام پر حزب اختلاف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اب بھی ویسا ہی ہورہا ہے، پس کچھ ایسا بھی تو نظر آئے جس سے قوم کے سنجیدہ لوگ سمجھ سکیں کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر دوبارہ وہی غلطیاں نہ دھرانے کا عزم مصمم کرلیا ہے،بہرکیف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں قریباً ایک ماہ میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، ایک فریق کہتا ہے کہ دوسرا فریق راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عدم استحکام اور بے یقینی کا ماحول پیداکررہا ہے کیونکہ اِسے سیاسی نقصان کا احتمال ہے جبکہ دوسرا فریق بھی ایسے ہی الزامات لگارہا ہے، مگرسوال پھر یہی ہے کہ پہلے سے منتشر اور مضطرب معاشرے کو ہم مزید کتنا تقسیم کرنا چاہتے ہیں، کیا ریاست اور عوام کا مفاد اولین نہیں ہے، ہمارے داخلی حالات جتنے پرسکون اور اطمینان بخش ہوں گے غیر ملکی سرمایہ کار اور ادارے اتنے ہی فراخدلی سے ہماری طرف آئیں گے مگر جب ہر طرف بے یقینی، بے چینی اور سیاسی لحاظ سے عدم استکام ہوگا تو کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کار یا ادارہ ہمارے یہاں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرے گا۔ ہم سمجھتے ہیںکہ سیاسی قیادت کو ملک و قوم کو درپیش چیلنجز کا حقیقی ادراک کرتے ہوئے ہر اُس غلطی سے بچنا چاہیے جس کا مستقبل میں انہیں خود بھی سامناکرنا پڑ ے اور ایک بار پھر میثاق جمہوریت کی ضرورت محسوس ہو۔ قریباً ایک سال میں سیاست کے میدان میں جو کچھ بھی ہوا وہ قطعی قابل تعریف و تحسین نہیں، اپنی غلطیوں کا ازالہ ازخود کرنا ہوگا کیونکہ غلطیوں کا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے، مگر بسا اوقات ہماری غلطی کسی دوسرے فرد یا معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button