ColumnImtiaz Aasi

کٹھن راستہ اور توشہ خانہ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

بعض حلقوںکے نزدیک وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ سنبھال کرکٹھن راستے کا انتخاب کیا وہ حکومت نہ سنبھالتے تو ملک دیوالیہ ہو چکا ہوتاحالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شہباز شریف نے اقتدار سنبھال کر اپنے اور خاندان کے افراد کے خلاف مقدمات ختم کرنے کے نیب قوانین میں ترامیم کیں۔شریف خاندان کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات نہ ہوتے تو یہ بات کسی حد تک قابل تسلیم تھی ان کا اقتدار میں آنے کا مقصد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا۔فرض کریں یہ بات مان لی جائے کہ شہباز شریف نے ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے اقتدار سنبھالا تھا تو سوال ہے کہ حکومت سنبھالے ایک سال ہو گیا ہے معاشی بہتری کے لیے انہوں نے ابھی تک کون سا تیر مارا ہے جو عمران خان مارنے میں ناکام رہے۔آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے باوجود حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے میں ناکام رہی ہے، الٹا آئی ایم ایف 1998جیسی شرائط منوارہا ہے۔معاشی خرابی اور مہنگائی کی ذمہ داری سے حکومت کو بری الزمہ قرا ر نہیں دیا جا سکتا۔
پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے وزارت عظمیٰ مسلم لیگ نون کو دے کر بڑی سیاسی چال چلی جس سے حکومت کی خرابیوں کا ملبہ نو ن لیگ کے سر ہے ۔مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا یہ کیا دھرا ہے ہمارے ملک کا شمار مقروض ترین مصر، سری لنکا ، کولمبیا اور انگولا میں ہوتا ہے۔حکومت نے معاشی بہتری کے لیے اب تک جو اقدامات کئے ہیں عمران خان اقتدار میں ہوتے تو ان کے لیے یہ اقدمات مشکل تھا؟ عمران خان کے دور میں ملکی برآمدات میں اضافہ ہو رہا تھا اور ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا تھا جن میں اب کمی واقع ہو چکی ہے۔ تو کیاہم اسے شہباز شریف حکومت کی کامیابی قرار دیں یا ناکامی ؟شریف خاندان کی مداح سرائی کرنے والے بعض صحافی اب تک اٹھائے گئے معاشی اقدامات کو شہبا ز حکومت کی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔شریف خاندان کے کاسہ لیسوں کا ایک موقف یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت نہ گرائی جاتی توبھی آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ شریف خاندان کی مدح سرائی کرنے والے حضرات نہ جانے حقائق مسخ کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔شریف خاندان اور زرداری اینڈ کمپنی واحد سیاست دان ہیں جن کے خلاف ہر دور میں کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے جنہیں طوالت دے کر وہ سزائوں سے بچتے رہے۔ ناجائز دولت سے بیرون ملک جائیدادیں اور بنک اکاونٹس رکھنے کا سہرا دو جماعتوں کا طہرہ امتیاز ہے۔
جہاں تک عوام کی خدمت کی بات ہے ابھی چند روز پہلے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے وزیراعظم شہباز شریف سے سندھ کے سیلاب متاثرین سے کئے گئے وعدے پورا نہ کرنے کا شکوہ کیا ہے۔شہباز شریف اچھے منتظم ہوتے بیرون ملکوں سے مالی امداد لینے میں کامیاب ہوجاتے تو وزیرخارجہ کو شکوہ کرنے کی چنداں ضرورت نہ ہوتی۔عمران خان کو اقتدار سنبھالتے کروناوائرس جیسی وباء سے واسطہ پڑا۔ اس دوران متاثرین کی مالی امداد کئی گئی بیرونی دنیا اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکی۔صحت کارڈ کا اجراء کرکے غریب عوام کو صحت کی مفت سہولت دے کر عمران خان کی حکومت نے لوگوں کی بہت بڑی خدمت کی ۔کوئی مانے نہ مانے انہی وجوہات کی بنا عوام کی بہت بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ ہے۔ شہباز حکومت نے صحت کارڈ پروگرام بند کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ صحت کارڈ کی سہولت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔صحت کارڈ کی سہولت ختم ہو جاتی تو مسلم لیگ نون کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو جاتا۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زید ی کے مطابق آئی ایف ایم نے مارچ میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کواپنے ایجنڈے میں نہیں کیا جسے حکومت کی معاشی کامیابی قرار دیں یا ناکامی؟ حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں دس روپے فی لٹر اضافے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے جس کا اعلان بہت جلد متوقع ہے گویا یہ تمام باتیں موجودہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔عمران خان کے خلاف کرپشن کو کوئی کیس نہیں مل رہا ہے تو ہر روز توشہ خانہ گھڑی کی فروخت کا شور غوغا کرکے عمران خان کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش جاری ہے توشہ خانہ کے معاملات چلانے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے ماسوائے کیبنٹ ڈویژن کا ایک نوٹیفکیشن جس میں توشہ خانہ کے امور چلانے کے لیے ایک پالیسی دی گئی ہے جسے قانون قرار نہیں دیا جاسکتا،لہٰذا گھڑی فروخت کرکے عمران خان نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے نون لیگ اسے قانون کی خلاف ورزی قرار دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔
توشہ خانہ کی تفصیلات منظر عام پر آنے سے انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور کئی تحائف بغیر قیمت ادا کئے اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔ توشہ خانہ کا معاملہ چل ہی پڑا ہے تو حکومت کو توشہ خانہ کے تحائف بارے باقاعدہ قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ مستقبل قریب میں توشہ خانہ کی اشیاء بلاقیمت وصول کرنے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ ہونا تو چاہیے کہ توشہ خانہ کی اشیاء کا اوپن آکشن کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ رقم وصول ہونے کے بعد اسے قومی خزانہ میں جمع کرایا جائے تاکہ توشہ خانہ سے کم رقم ادا کرکے تحائف لینے کا سلسلہ بند ہو جائے۔ ملک کے خراب معاشی حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو سر جوڑ کر معاشی بھنور سے نکلنے کی سعی کرنی چاہیے ۔حکومت کوعمران خان کے ساتھ بات چیت کے بند دروازوں کو کھولنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اگر حکومت صدق دل سے تمام اختلافات بھلا کر تحریک انصاف کے چیئرمین سے بات چیت کرئے یہ کام کوئی مشکل نہیں۔لہٰذاحکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ملک اور عوام کی خاطر انا کے خول سے نکل کر عمران خان سے بات چیت کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔جب تک تمام سیاسی جماعتیں یکجا نہیں ہوں گی یا انتخابات نہیں ہوں گے ملکی حالات کی بہتری کی کم امید رکھنی چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button