ColumnZameer Afaqi

موجودہ سماج میں پولیس کا کردار .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو امن و امن کا گہوارہ بنانے اور جرائم کی شرح میں کمی کے ساتھ سماج میں نارمل روئیوں کے فروغ کیلئے پولیس کا کردار بہت اہم ہے لیکن اگر پولیس خود ڈپریشن اور دبائو کا شکار ہو گی تو اس سے آپ بہتری کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ پولیس کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود پولیس کے اعلیٰ افسران بھی پولیس میں اصلاح کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اس کیلئے ان کی جانب سے کی جانے والی کوششیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ مگر بات وہی ہے جب پورے کا پورا ملکی نظام گل سڑ کر بدبو پھیلا رہا ہو تو وہاں آپ صرف پولیس کے محکمے کو کس طرح صالح بنا سکتے ہیں؟ پولیس کی اصلاح نظام کی تبدیلی اور بہتری تھانہ کلچر جیسی باتیں روزاول سے ہی سنتے آرہے ہیں۔اگر پولیس کو درست رکھنا مقصودہوتا تو شروع دن سے ہی اسے بھی فوج کے طرح کی ٹریننگ ، مراعات اور کالج مہیا کئے جاتے لیکن باوجوہ ایسا اس لیے نہیں کیا گیا کہ اسے جبر کے آلہ کار کے طور پر رکھنا مقصود تھا لیکن چلیں جو ماضی میں ہو گیا سو ہو گیا لیکن اب بھی خرابی کو درست کرنے کی طرف اقدامات اٹھا لیے جائیں تو بہتری آسکتی ہے، جس کیلئے تدریجاً کام کا آغاز کرنا ہو گا رات ہی رات میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آئے گی نہ آسکتی ہے یہ غیر فطری عمل ہو گا۔ جس طرح آج کل پریشر کے نتیجے میں اقدامات اٹھائے جارہے ہیںکہیں کوئی واقعہ ہو تا ہے تو تبدیلی کا کوڑا برسا دیا جاتا ہے،یہ طریقہ کار بذات خود خرابی کا سبب بنتا ہے ۔اس لیے اس طرح کے خود نمائی کے اقدامات سے گریز ہی بہتر ہے اور ہر معاملے میں جناب وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو فوری رد عمل نہیں دینا چاہیے ۔ نہ ہی وزیر اعظم بائیس کروڑ عوام تک فرداً فرداً پہنچ سکتا ہے اور نہ وزیر اعلیٰ، ملکی نظام کو مضبوط صاف اور شفاف بنائیں سب کے حقوق کا تحفظ کریں تاکہ خرابیاں دور ہوں اگر آمرانہ روئیوں سے ہی حکومت چلانی ہے تو پھر جمہوریت کو دیس نکالا دے دیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کا سہارہ لیکر ہم ایک طرف جرائم پیشہ افراد کا راستہ روکنے کے ساتھ کرائم میں کمی لا سکتے ہیں تو دوسری جانب پولیس کے افعال پر بھی کڑی نظر رکھ سکتے ہیں۔ جن ملکوں میں سکیورٹی اہلکاروں پر ہی انحصار کیا جاتا ہے وہاں بھی اب یہ سوچ پروان چڑھتی جارہی ہے کہ سو سپاہیوں سے بہتر ہے دس سیکورٹی کیمرے لگا دیئے جائیں جو نہ رشوت لیتے ہیں اور نہ ہی وہ ظلم و تشدد کرتے ہیں۔ بلکہ بحسن خوبی ایک سپاہی سے زیادہ اچھی کار کردگی کامظاہرہ کرتے ہیں۔اب یہی دیکھ لیجیے جن ملکوں نے ان جدید آلات اورکیمروں سے کام لینا شروع کر دیا ہے وہاں کانظام حکومت بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ٹریفک کانظام ہو یا دوسرے عوامل سب اچھے طریقے سے سر انجام پارہے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں جب ہر تعلیمی ادارے اور مدرسے کے کلاس روم، دفاتر کے کمروں ،سڑکوں اور ٹریفک سنگلز پر سکیورٹی کیمرے لگے ہوں گے اور یہ تصور رائج ہوجائے کہ ’’کیمرے دیکھ رہے ہیں‘‘ کون ہے جو اپنے کام سے کوتاہی برتے یا کوئی جرم کرے گا۔؟
جس طرح جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ان پر قابو پانے اور شہریوں پر نظر رکھنے کیلئے سکیورٹی حکام کی عمومی سوچ یہی ہوتی ہے کہ شہری علاقوں میں لوگوں اور عمارتوں کی حفاظت کیلئے زیادہ سے زیادہ سکیورٹی اہلکار تعینات کرنے سے تحفظ کا معیار بہتر ہو جاتا ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے۔تخریب کاروں اور دہشت گردوں کو دور رکھنے کے لیے نظر آنے والے سکیورٹی اقدامات( سکیورٹی کے نام پر اہلکاروں کا ہجوم کھڑا کرنے ) پر ہی زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ روایتی انداز میں سکیورٹی اہلکاروں پر ہی انحصار کیا جانا کم خرچ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اب یہ سوچ بدلتی جارہی ہے اور سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے علاوہ سی سی ٹی وی کیمروں کو نگرانی کے لیے استعمال کیا جانا شروع ہو گیا ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں ابھی بھی انسانی وسائل پر ہی زیادہ زور دیا جاتا ہے اور ٹیکنالوجی کا استعمال خال خال ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ وقت کاتقاضا ہے کہ شہری علاقوں میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے نظر آنے والے اقدامات سے خفیہ اقدامات یا ٹیکنالوجی کو بڑھانے پر توجہ دی جائے۔ کیمروں کی تنصیب اور ہر حرکت کو ریکارڈ کرکے نگرانی کے نظام کو بہتر بنانے سے تمام پولیس افسران کا احتساب بھی ممکن ہے اور عوام کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔ اِس کا سب سے زیادہ فائدہ تفتیش کرنے والے اہلکاروں کو ہوگا۔ اِس سے چہرے کی شناخت کے ذریعے سے ذمہ داروں کی نشاندہی میں مدد ملے گی اور اِس کو عدالتوں میں ثابت کیا جا سکے گا جس کا وکیل صفائی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔اس طرح ٹیکنالوجی کااستعمال عدل کے نظام میں فیصلہ کن اضافہ ثابت ہو گا اور تمام شہری آبادی اِس سے مستفید ہوگی۔
کیمروں کی تنصیب اور ہر حرکت کو ریکارڈ کرکے نگرانی کے نظام سے جرائم میں کمی، ٹریفک حادثات کے دوران اموات میں کمی۔ ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر اقدامات کے ذریعے سے آمدنی میں اضافہ۔ شفاف نظام ، احتساب اور شہریوں کی سکیورٹی کے معاملات بہتر انداز میں چلا کر عوام کے اعتماد کو جیتا جا سکتا ہے۔ صرف ’’کیمرہ دیکھ رہا ہے‘‘ کے تصور کو عملی جامعہ پہنانے سے یہ سب ممکن ہو سکتا ہے۔جدید ٹیکنالوجی سے ہم کافی مدد لے سکتے ہیں، شہری علاقوں میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے نظر آنے والے اقدامات سے خفیہ اقدامات یا ٹیکنالوجی کو بڑھانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ دنیا کےبڑے بڑےشہروں لندن، گلاسکو، نیویارک، میکسیکو، نیروبی، دبئی اور قطر کی گلیوں اور شاہراوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی بڑھانے کے بجائے ایک مربوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ذریعے سے جدید کیمروں کی آنکھوں اور کانوں کا استعمال زیادہ کیا جا رہا ہے جس کا مقصد ہے کوئی مجرم بچ کر نہ جائے کوئی بے گناہ پکڑا نہ جائے۔
آخری بات پولیس کو سیاست سے پاک کیے بغیر کسی بھی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پولیس میں ہر سطح کی بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر کی جانی چاہیے۔ اہل کاروںاور افسران کو جدید خطوط پر تربیت دینے کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ پولیس کی تنخواہیں بہتر کر کے محکمے میںاحتساب کا سخت نظام قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔پولیس کے محکمے میں اصلاحات کے لیے یہاں کئی اہل اور باصلاحیت آفیسر موجود ہیں اور بہت سی تجاویز بھی سامنے ہیں۔دنیا بھر کے ماڈلز انٹرنیٹ پر دست یاب ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button