ColumnQaisar Abbas

ست رنگی اور نیلی جھیل .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

قراقرم کے دل میں واقع جھیلیں سرزمین گلگت کی دو ہزار جھیلوں میں سب سے نمایاں تھیں کیونکہ ان کے رنگ الگ جہان تھے ۔ نلتر بالا سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہم ست رنگی جھیل کے کنارے پر کھڑے تھے اور اس جھیل کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ 3050 میٹرز میں پھیلی یہ گول جھیل اپنی تہہ تک عیاں تھی اور اس پر بادلوں کا دودھیا رنگ نمایاں تھا۔ برف کے ٹکڑے پانی میں راج ہنسوں کی طرح تیرتے تھے ۔ درختوں میں ڈھکی اس جھیل پر ٹہنیاں یوں جھکی تھیں جیسے پانی پر سجدہ ریز ہوں ۔ ست رنگی جھیل میں سبز رنگ اس کی تہہ کا تھا اور پانی نیلا تھا ۔ اطراف میں برف پوش پہاڑوں کا چٹیل وجود بھی جھیل میں رقص کرتا تھا تو رنگ بدل بدل کر منظر تخلیق ہوتے تھے ۔
کوئی بھی منظر دراصل ہمیشہ سے بے رنگ ہی ہوتا ہے ۔کیف ، خوشبو اور دھنک تو دیکھنے والے کی خواہشات کی وہ منازل ہیں جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور پھر کر لیتا ہے ۔۔بے ذوق آدمی کیلئے ست رنگی جھیل پانی کا جوہڑ بھی ہو سکتی ہے ، مگر جس جاگتی آنکھ نے برسوں ایسے مناظر خیالوں میں تخلیق کئے ہوں ، اس کیلئے تو وہی حاصل سفر بھی ہے اور منزل بھی۔ست رنگی جھیل کے کنارے سرکاری ریسٹ ہاوس کی عمارت پرشکوہ ہونے کے باوجود ویران تھی۔جب ہم وہاں پہنچے تو ساکت ہوگئے ۔ شفاف پانی میں بادلوں کا دودھیا عکس تھا اور سبز کائی جمی تھی ۔ جھیل کے اطراف میں کچھ قدیم درخت پانی پر یوں جھکے ہوئے تھے جیسے بوسہ لے رہے ہوں ۔
ریسٹ ہاؤس کی طرف جو جھیل کا کنارا تھا ، وہاں راشد ، کنول ، اسرار احمد ، ڈاکٹر قرۃ العین اور تمام بچے جھیل کو دیکھتے گم تھے اور فوٹو گرافی زیادہ کر رہے تھے ۔ میں عین اسی لمحے ست رنگی جھیل کے دوسرے کنارے پانی میں اس کا عکس دیکھتا تھا ۔ برف پانی میں جم چکی آنکھیں جھیل جیسی تھیں اور ان آنکھوں میں جو خواب تھے وہ بادلوں میں چھپے جاتے تھے ۔ سر سبز درخت اپنا رنگ ست رنگی جھیل میں انڈیل رہے تھے ۔
ہم دونوں ان مشکل مگر بھیگ چکی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے وہاں پہنچ گئے جہاں ہمارے سب دوست موج مستی کر رہے تھے ۔ اس برف دھرتی پر ملتان کی گرم دھرتی کے آم اسرار چودھری نے سبھی کیلئے عام کر دئیے تو پھر چند لمحوں میں ہر سو مٹھاس پھیل گئی۔ ایسا ذائقہ ہر جانب پھیل گیا جس سے نلتر کی فضا واقف نہ تھی ۔ سیبوں ، اخروٹوں اور خوبانیوں کے دیس میں آم عام ہوتا گیا ۔ جھیل ست رنگی کے کنارے زرد رنگ کی کمی تھی وہ آموں نے پوری کر دی ۔ایسی جھیلیں بہت کم ہوتی ہیں جو خوبصورت بھی ہوں اور انہیں چھوا بھی جا سکے۔ ست رنگی جھیل آسان دستیابی کے باوجود بہت دل کش جھیل تھی۔ یہ سراسر شیشہ جھیل تھی اور اگر اس میں بادلوں کا ، آسمان کا ، درختوں کا عکس نہ ہوتا تو یہ شاید چھو لینے کے بعد پتا دیتی کہ یہ جھیل ہے ۔ جھیل کی تہہ میں سے اُبلتے چشمے جو بلبلے بناتے تھے وہ ہمیں بتاتے تھے کہ یہاں پانی بھی ہے ۔ ایسے رنگ کسی اور جھیل کا مقدر نہ ہوئے تھے یا پھر یہ جھیل نہ تھی ۔ ست رنگی دنیا بہت مختصر اور سوچ و نگاہ کے قابو میں تھی ۔ بدلتے رنگ بھی کہیں تہہ سے پہلو بدلتے تھے ۔جھیل کے اندر کی دنیا بھی اب ہم سب پر عیاں ہوتی تھی ۔ کہیں کوئی خزاں رت پتہ گرا تھا تو وہ سونا ہو گیا تھا ۔ کہیں دلدل تھی اور کہیں لکڑی کے تنے شیشے کے آبی فریم میں جڑ دئیے گئے تھے ۔ جھیل کے تمام اطراف سے طواف کیا تو ایک نشہ سا طاری ہو گیا ایسا نشہ جو ایک الگ ذائقہ اور لمس رکھتا تھا۔۔
یہ ست رنگی جھیل تھی ۔۔
ست رنگی جھیل مختلف مصوروں کے ہاتھوں سے بنی ایسی شاہکار تصویر تھی جو سانس بھی لیتی تھی اور خفا بھی ہو جاتی تھی ۔ ہم نے جھیل کے کناروں پر گندگی میں اضافہ نہ کیا ۔ کوئی چھلکا ، کوئی بوتل نہ پھینکی ۔چودہ رکنی گروپ میں چند بچے بھی شامل تھے ، پھر بھی ہم اپنا اپنا کوڑا کرکٹ ساتھ اٹھا لائے ۔ مقدس وادی کو آلودہ نہ کیا ۔ہم دونوں اس رنگ بھری جھیل کے گیلے کناروں سے ہوتے ہوئے واپس لوٹ آئے تو سب کو مست دیکھا ، سب اپنی اپنی سیلفیوں میں مشغول و مصروف تھے ۔ سب اپنی دنیا میں گم تھے ۔
ہم ایک دل موہ لینے والے منظر کو جذب کرنے کی کوشش میں مجذوب ہوئے جاتے تھے اور پھر آخر کار وہاں سے چل دئیے ۔ دل ابھی بھرا نہ تھا کہ نئی منزلوں کی طرف چل پڑے ۔ جیپوں کے ڈیزل انجن فضا کو آلودہ کر رہے تھے جب ہم نئی منزلوں کی طرف چلے مگر یہ ساتوں رنگ یاداشت کی سلیٹ پر کنندہ ہو گئے۔ نلتر جھیل پھر صرف خواب نہ رہی ، تعبیر بن گئی ۔ست رنگی جھیل کے بعد موت کا رنگ ہم پر مسلط تھا اور زندہ بچ چکے نوجوان کی خوشی پر مر گئے لڑکے کا دکھ بھاری تھا ۔ ست رنگی جھیل کی پشت پر انہی گوجروں کی جھونپڑیاں تھیں جن کے گھر ابھی ابھی موت ہوئی تھی ۔ ہم انہی جھونپڑیوں کے قریب سے گزر کر بلیو جھیل تک پہنچے تو حیران رہ گئے کہ راستے میں گم سم ایک پری لیک بھی تھی ۔ اس وقت ہم سب پریشان اور دُکھی تھے مگر بچوں کو دکھ سے نکالنے کیلئے بظاہر نیلی جھیل پر لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ عون نے جیپ میں بیٹھ کر رونا شروع کر دیا تھا اور اس کو بار بار مر چکا لڑکا یاد آ رہا تھا ۔
بلیو لیک کا نیلا رنگ ایسا پرکشش بھی ہو سکتا ہے کہ ایک رواں اور زندہ جھیل میں بغیر عکس بدلے نیلگوں لیپ چڑھا تھا۔ بلیو لیک کی لمبائی بھی 3150 میڑز تھی ، وہ ایک اور جھیل کے ساتھ جا ملتی تھی ۔ ایک اور دل کش جھیل ، پری لیک جو چھوٹے پہاڑوں میں تکون صورت تھی اور بہت پراسرار تھی ، بالکل پریوں کی طرح ، جن پر اعتبار بھی نہیں آتا اور ان کا تصور بھلا بھی لگتا ہے ۔ نلتر بالا سے جھیلوں تک جو سفر کی تھکن تھی ، یہ جھیلیں ان کا کفارہ تھیں ۔
بلیو لیک کے کنارے پر گھنا جنگل اسے مزید خوبصورت بناتا تھا اور جھیل کے پانی کسی بھی طرح کی ملاوٹ سے پاک تھے ۔ آلودگی پھیلانے والے اور گندگی پھینکنے والے یہاں تک نہیں پہنچے تھے ۔ نلتر کی یہ جھیلیں سیاحوں کو اپنی طرف بلاتی تھیں اور وہاں کے باسیوں کی سال بھر کی روزی کا سبب بنتی تھیں ۔ فطرت کا یہ شاہکار بھی بہت سے لوگوں کیلئے رزق کا وسیلہ تھا ۔
ہر سو پانی تھا اور پانی جو زندگی ہے ، اس زندگی میں موت تھی ۔ ایک درخت سوکھ کر موت کی علامت بن گیا تھا ، وہ سوکھا ہوا درخت شاید زندگی کی زیادہ مقدار میسر ہونے کی وجہ سے مر چکا تھا ۔جس طرح مسلسل نفرت آپ کو کھا جاتی ہے بالکل اسی طرح مسلسل محبت بھی آپ کو مفلوج کر دیتی ہے۔ توازن زندگی کا جزو لازم ہے ۔ محبت بھی ایک نشہ ہے ، نہ ملے تو جسم ٹوٹتا ہے ، بدن میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں ۔ مسلسل محبت کی دستیابی انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی ۔ عجیب طرح کا تکبر ہوا کی مانند مزاج میں بھر جاتا ہے ، کسی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ بہت سے ضروری رشتے آہستہ آہستہ دور ہوتے جاتے ہیں ۔ ایک محبت کی فراوانی بہت سی نفرتوں کا سبب بن جاتی ہے ۔
جھیل میں سوکھ چکا درخت بھی محبت کی مسلسل فراوانی کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا ۔ ہر سو زندگی تھی اور اس زندگی کے عین درمیان موت تھی ۔وسیع جھیل پہاڑوں میں گھری ہوئی تھی مگر وہ پہاڑی دیواریں اسے وسعت عطا کرتی تھیں ۔ تنگ دامنی کا احساس کہیں بھی نہیں تھا۔۔
ہمارے اوپر افسردگی مسلط تھی پھر بھی ہم گھنٹہ بھر یہاں ٹھہرے رہے ۔ آسٹریلوی سیاح خاتون سے حجاب اور عون گفتگو کرتے رہ گئے مگر اس گپ شپ نے بھی ان پر مسلط خوف کا مداوا نہیں کیا ۔ بہت سی جیپیں درجنوں سیاحوں کو لیے بلیو لیک کی پراسرار فضا میں خلل ڈال رہی تھی اور کچھ فطرت دشمن خاموش پانی میں کنکر پھینک کر اپنا تعارف کروا رہے تھے کہ ان کی تربیت میں کمی رہ گئی تھی ۔
ابھی ابھی جو موت ہوئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ ایک موت زندگی میں بھی تو بدل گئی تھی۔ یہ بات ہم نے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ان کے حواس پر ایک غم چھایا تھا۔ فوزیہ بھی اندر سے ملول تھی کہ اس کی آنکھوں میں عجیب یاسیت تھی۔ نیلی جھیل کے عکس اس کی آنکھوں کے تحیر میں اتر آئے تھے ۔ ہمارے پاس وہاں سے بھاگ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔
بلیو لیک سے آگے بھی اک جہاں تھا، وہ کہاں تھا؟ ہم بے خبر تھے اور ست رنگی جھیل سے بلیو لیک تک مختصر سفر کے دوران زندگی اور موت کا طویل فاصلہ مسلط کر دیا گیا تھا، اس فاصلے کے زماں و مکاں الگ تھے ۔ ڈاکٹر عینی بھی بد حواس تھیں ، تھک چکی تھیں ۔ ہم جنگل کے افسردہ درختوں کے قریب بیٹھ گئے۔ جھیل رفتہ رفتہ اپنا آپ ہم پر کھولنے لگی۔ درجنوں جیپیں وہاں پہنچ چکی تھیں اور وہ تمام سیاح ماضی قریب میں رونما ہو چکے حادثے سے بے خبر تھے اس لیے جھیل ان کو کچھ زیادہ عزیز ہوئی جاتی تھی، اس لیے انہوں نے پنجابی گیتوں پر بھنگڑے ڈالنے شروع کر دئیے تھے۔
ہمارے بچوں پر ان بھنگڑوں کا بھی کوئی اثر نہ ہوا، اس لیے ہم نے وہیں سے واپسی کیلئے رخت سفر باندھ لیا۔ پری جھیل ہماری بائیں جانب تھی اور چند قدم آگے دائیں جانب وہ ندی تھی جس نے ایک نوجوان کی جان لی تھی۔ ندی کی دوسری جانب جواں مرگ موت پر ماتم تھا اور لوگ جنازے میں شرکت کیلئے جمع ہو رہے تھے ۔
ہم جائے وقوعہ سے نگاہیں بچا کر ست رنگی جھیل کے قریب آ گئے۔ جھیل کے رنگوں میں اداسی کا رنگ نمایاں تھا۔ نیلی جھیل سے آگے، لوئر شاہنی اور شاہنی ٹاپ کی برفوں کے سامنے بچھے سبز میدان ہمیں اپنی طرف بلاتے تھے مگر موت کا رنگ، منظر اور مقام بدلنے پر بضد تھا، سو ہمیں واپس لوٹنا پڑا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button