Editorial

ا نتخابات سے متعلق سکیورٹی اداروں کا انتباہ

ا نتخابات سے متعلق سکیورٹی اداروں کا انتباہ

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں حساس اداروں نے کہاہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے ماحول سازگار نہیں ، سکیورٹی تھریٹس بہت زیادہ اور شدت کے ہیں۔ اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن کے جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہاگیا کہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال اور دیگر متعلقہ امور پر تفصیلاً بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کا مقصد صوبوں میں پر امن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اس بریفنگ کے بعد کمیشن کو الیکشن کے پر امن انعقاد کے سلسلے میں مختلف فیصلے کرنے میں آسانی ہو گی۔الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبر پختونوا میں انتخابات کے لیے 3 لاکھ 53 ہزار اضافی نفری کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں پولیس کے علاوہ 2 لاکھ 97 ہزار دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار درکار ہوں گے جبکہ خیبر پختونخوا میں 56 ہزار مزید نفری درکار ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق دونوں صوبوں میں قریباً 67 ہزار پولنگ سٹیشنز قائم کیے جائیں گے، پنجاب میں قریباً 52 ہزار جبکہ خیبر پختونخوا میں 15 ہزار پولنگ سٹیشن قائم ہوں گے۔ ڈی آر اوز انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز کی نشاندہی کریں گے جبکہ انتہائی حساس پولنگ سٹیشن میں سی سی ٹی وی کیمروں سمیت دیگر اداروں کے سکیورٹی اہلکار تعینات کرنا ہوں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سکیورٹی اداروں نے الیکشن کمیشن کو متذکرہ اجلاس میں تھریٹس کے حوالے سے آگاہ کیا اورموجودہ سکیورٹی تھریٹس کی بنیاد پر اس وقت الیکشن نہ کرانے کا مشورہ دے دیااور دوران اجلاس انتخابات کرانے کی متفقہ طور پر مخالفت کی۔ پنجاب میں انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کا حکم آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی اور دیگر مراحل کا شیڈول جاری کردیا ہوا ہے، گذشتہ روز صوبہ بھر کے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کے دفاتر میں پبلک نوٹس بھی آویزاں کردیئے گئے ہیں اور اب امیدوارکاغذات نامزدگی جمع کراسکتے ہیں۔ پنجاب کی سیاست میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کے انتخاب کے معاملے میں کام تیز کردیا ہے جبکہ مریم نواز پہلے ہی ورکرز کنونشن کے ذریعے ایک طرح سے انتخابی مہم جاری رکھے ہوئی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی مختلف مہمات کے نام پر رابطہ عوام مہم جاری رکھی ہوئی ہے اورتازہ اطلاع کے مطابق عمران خان آج سے باقاعدہ رابطہ عوام مہم شروع کررہے ہیں، چند روز قبل بھی اُن کی ریلی کا مقصد انتخابی مہم ہی ظاہر کیاگیا تھا لیکن افسوس کہ پولیس اورتحریک انصاف کے کارکنان کے مابین تصادم میں ایک قیمتی جان ضائع ہوگئی اور اب ایک نیا تنازعہ پیداہوچکا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد پنجاب میں جیسی سیاست ہورہی تھی، اِس سے قطعی کہیں اشارہ نہیں مل رہا تھا کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد صوبے میں انتخابات ہوں گے، کیونکہ ایک طرف صوبے میں عام انتخاب کی تاریخ مانگی جارہی تھی تو دوسری طرف قانونی موشگافیوں کا سہارا لیکر فریقِ اول کو ستایا جارہا تھا بہرکیف عدالت عظمیٰ کے احکامات کے بعد اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کے لیے شیڈول جاری کرہی دیا ہے تو سکیورٹی اداروں نے سکیورٹی وجوہات کو بنیاد بناکر صوبے میں انتخابات نہ کرانے کا مشورہ دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں حالات کیا ہوتے ہیں ، الیکشن کمیشن آف پاکستان ، ادارے اوروفاقی حکومت کس نتیجے پر پہنچتے ہیں اِس کا پتا آنے والے دنوں میں ہی چلے گا لیکن سکیورٹی اداروں کی اطلاعات کو انتخابات سے فرار کا نام دیا جارہاہے لیکن ہماری رائے میں فوراً ردعمل دینے کی بجائے زمینی حقائق کو دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا واقعی ایسی سنگین اطلاعات ہیں جن کا اظہار سکیورٹی اداروں نے الیکشن کمیشن کے روبرو اجلاس میں کیا ہے یا پھر کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے ایسا کہاجارہا ہے تاکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کا انعقاد التوا کا شکار کیے جاسکیں جیسا کہ وفاقی حکومت بھی چاہ رہی ہے۔ بہرکیف سکیورٹی اداروں کی اطلاعات کو قطعی رد کرنا بھی مناسب نہیں اور اِن اطلاعات کو الیکشن سے فرار قراردینا بھی ٹھیک نہیں، چونکہ دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد سے ابتک ایسے اقدامات اور موقف سامنے آئے ہیں جن کا مقصد بظاہر یہی تھا کہ وفاقی حکومت دونوں صوبوں میں انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتی اسی لیے کبھی سکیورٹی، کبھی درکار فنڈز کو جواز کے طور پر پیش کیا جارہا ہے تو کبھی سکیورٹی اداروں کی نفری میں کمی جیسے جواز سامنے لائے جارہے ہیں۔ اب چونکہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنا سبھی کے لیے ناگزیر ہے اِس لیے سکیورٹی اداروں کو زیادہ سے زیادہ جانفشانی اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو رابطہ عوام مہم کے لیے ایک سا اور سازگار ماحول دینا پڑے گا کیونکہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی صلاحیت اور جانفشانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، سیاست دان سوالات اور جواز گھڑنے کے ماہر ہوتے ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ سکیورٹی ادارے بروقت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل اوراپنی توانائیاں بروئے کار لائیں تاکہ کسی کو بھی ان معاملات سے سیاست چمکانے کا موقعہ نہ مل سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button