Columnمحمد مبشر انوار

شکست اور کیا ہو گی!!! ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

شکست اور کیا ہو گی!!!

سید مشاہد حسین حکومت کا حصہ ہیںاور پچھلے دنوں ایک ٹاک شو میں انہوں نے بہت اصولی و گہری بات کی، جسے سمجھنا حکومت اور اس کے اتحادیوں کیلئے نہ صرف بہت ضروری ہے بلکہ پاکستان بھی بہت سے مسائل سے نکل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ حزب اقتدار میں بیٹھی جماعتیں جزب اختلاف کے خلاف اتحاد بنائے ہوئے ہیں جبکہ سیاست میں ہمیشہ حزب اختلاف نے حکومت کے خلاف اتحاد بنائے ہیں۔ یہ حقیقت اس امر کی غماز ہے کہ حزب اختلاف کی مقبولیت کا گراف اس وقت حکومت سے کہیں زیادہ ہے اور حزب اختلاف میں بھی فقط عمران خان کی ذات ہے جو مقبولیت کی انتہا کو چھو رہی ہے وگرنہ ہمیشہ اس کے برعکس رہا ہے کہ حکومت سے نکالے جانیوالوں کیلئے کہیں کوئی جگہ نظر نہیں آتی تھی بلکہ اقتدار پرست ساتھی حکومت جاتے ہی یا آثار پیدا ہوتے ہی دوسرے گھونسلوں پر اپنا آشیانہ بنا لیتے۔ یوں پاکستان کے سیاسی افق پر وہی چہرے ،اقتدار پرستی کے نظام میں اس ملک و قوم پر مسلط نظر آتے اور گدھوں کی مانند اس ملک کے وسائل لوٹتے رہے اور مسائل کی دلدل میں دھکیلتے رہے۔ سیاست کے نام پر تجارت ہوتی رہی اور گورننس کے نام پر ملک میں دو قوانین رائج کئے جا چکے ہیں، معیشت اور معاشی پالیسیوں کے نام پر ملکی معیشت زمین بوس جبکہ اشرافیہ کی معاشی حیثیت کو جیسے پر لگے ہوں۔ اشرافیہ کا ہر ذمہ دار مسلسل دہراتا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل جمہوریت میں پوشیدہ ہے لہٰذا یہاں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دینا چاہیے، جمہوری اقدار کی ترویج ہونی چاہیے، عوام نمائندگان کو عوامی مسائل حل کرنے چاہئیں لیکن دہرے معیار کی انتہا ہے کہ ایک طرف یہ مؤقف ہے تو دوسری طرف ہر ذمہ دار یا اپنے حلقہ میں بااختیار آمرمطلق بنا نظر آتا ہے۔ ہر انفرادی آمر مطلق کی آخری پناہ گاہ پس پردہ حقیقی آمر کی آغوش ہے،جس میں سمٹنے کیلئے یہ چھوٹے چھوٹے آمر کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار رہتے ہیں کہ آخرکار اقتدار کیلئے راستہ اسی شاہراہ سے گذرتا ہے۔ جو اس شاہراہ کا مسافر نہ ہو،یا اس شاہراہ کے قوانین سے منہ موڑنے کی کوشش کرے،تو اس کیلئے اقتدار سے باہر نکلنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا،کوئی ایک خوش نصیب،عمران خان جیسا،اقتدار سے نکلنے کے بعد مڑ کر پیچھے دیکھتا ہے تو عوام کا جم غفیر اپنے پیچھے کھڑا پاتا ہے وگرنہ توکاغذی شیروں کیلئے اسلام آباد سے لاہور تک کے سفر میں ،کھانے کی ترغیب کے علاوہ نقد کے باوجود،سینکڑوں نہیں تو ہزاروں کا مجمع ساتھ نظر آتا ہے۔
عمران خان کی یہ خوش نصیبی ہے کہ پاکستانی عوام نے بلا شرکت غیرے اسے اپنا لیڈر تسلیم کر لیا ہے اور اقتدار سے نکالے جانے کے بعد اسے سڑکوں پر لانے کا سہرا عوام کے سر ہے کہ عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے نکلنے کے بعد خاموشی سے گھر چلا گیا تھا۔ عمران خان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ قوم اس طرح اس کے پیچھے سڑکوں پر نکلے گی کہ ماضی کے تجربات اس کے سامنے تھے،اپنے تئیں وہ اپنی اننگز کھیل چکا تھا اور اسے اقتدار میں رہتے ہوئے مشکلات کا بخوبی اندازہ بھی ہو چکا تھا کہ اس نظام کے تحت اس کے ہی نہیں بلکہ ہر سویلین کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔اس حقیقت کا ادراک ہر پاکستانی شہری کو ہے لیکن عمران خان کے پیچھے کھڑے ہونے کی واحد وجہ یہی نظر آتی ہے کہ عمران خان جانتے ہوئے کہ اسے اقتدار سے الگ کرنے کے بعد،اس کی اقتدار میں فوری واپسی ممکن نہیں،اپنے مؤقف پر سختی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے، مقدمات کے باوجود،خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے باوجود وہ نہ ملک سے باہر جانے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی کسی سمجھوتے کیلئے آمادہ نظر آتاہے۔عمران خان رجیم چینج کے بعد سے صرف ایک ہی مطالبہ دہراتانظر آ رہا ہے کہ ہر صورت عام انتخابات کروائے جائیں اور اس کیلئے مسلسل جدوجہد کررہا ہے،اگر عمران خان کی حکومت جمہوری اقدار کے مطابق گرائی گئی ہے،آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے تبدیل کی گئی ہے تو اس کا مطالبہ بھی جمہوری و آئینی ہی تصور کیا جائے لیکن اس کے برعکس،عمران خان کو اپنی دونوں صوبائی حکومتیں گرانے کیلئے یہ کہہ کر اکسایا گیاکہ اگر عام انتخابات چاہتے ہیں تو فوی طور پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں،عام انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔عمران خان چاہنے کے باوجود فوری طور پر بوجوہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کر پائے، جس پر حکومت نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان دہرے کردار کا مظاہرہ کر رہا ہے،جبکہ عوام کو بھی نظر آ رہا تھا کہ عمران خان کو اسمبلیاں تحلیل کرنے میں کن دشواریوں کا سامنا ہے اور اس میں حکومت اور اس کے پشت پناہوں کا کیا کردار ہے؟بہرکیف ان تمام صبرآزما مراحل سے گذرنے کے بعد،عمران خان نے اپنی دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی،لیکن حکومتی بدنیتی ،آئینی تقاضوں کی آڑ میں کھل کر سامنے آ گئی اور آخری چارہ کار کے طور پر عدالت عظمیٰ سے ہدایات لے کر انتخابات کی تاریخ دی گئی۔
پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد فطری طور پر سیاسی جماعتوں کیلئے انتخابی مہم شروع کرنا ہے لیکن یہاں ایک مرتبہ پھر نگران حکومت اپنی جانبداری کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے کہ ایک طرف تو مریم نواز پورے پنجاب میں بھرپور سکیورٹی کے ساتھ ورکرز کنونشن کرتی دکھائی دیتی ہیںجبکہ عمران خان ،جسے واقعتاً جان کا خطرہ ہے اور حکومت برملااقرار کر چکی ہے،کو زبردستی عدالتوں میں بلایا جا رہا ہے،تسلیم کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالا نہیں لیکن اس میں دہرا معیار کیوں؟عمران خان پر قاتلانہ حملے کے ملزم کو تو آن لائن پیشی کی سہولت میسر ہے لیکن جس شخص پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے،اسے عدالتیں یہ قانونی سہولت دینے سے گریزاں کیوں ہیں؟جب حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے پھر اسے یوں عدالتوں میں پیش ہونے پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر عمران خان کی جان خطرے میں ہے تو پھر عمران خان خود انتخابی مہم کیلئے باہر کیوں نکل رہے ہیں؟کیا اس وقت قاتل ان پر پر حملہ نہیں کر سکتے؟ عدالتوں میں پیشی کے پیچھے واضح ہے کہ چند اشخاص کی خواہشوں کو تکمیل کرنے کیلئے احاطہ عدالت سے عمران خان کو گرفتار کرنا زیادہ آسان اور موزوں ہے جبکہ عوامی اجتماعات میں عمران خان پر حملہ سے گو حکومت اور حکومت سے کئے گئے وعدے وفا تو ہوں جائیں گے، مگر ہو سکتا ہے کہ منصوبہ کے مطابق نہ ہوں۔دوسری اہم وجہ کہ اگر عمران خان عوام میں نکل آتے ہیں تو انتخابی مہم توقعات سے کہیںزیادہ کامیاب ہو جائے گی(جو ویسے بھی عمران خان کے حق میں ہے)اور حکومت کیلئے زیادہ مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔مسلم لیگ نون کیلئے پنجاب کی اہمیت کا سب سیاسی دانشوروں اور طالبعلموں کو بخوبی اندازہ ہے اور اسی کیلئے مسلم لیگ نون اپناپورا زور صرف کر رہی ہے لیکن نتیجہ اس کی منشا کے مطابق دکھائی نہیں دیتاجبکہ مسلم لیگ نون کسی بھی صورت انتخابی نتائج کو اپنے حق میں دیکھنا چاہتی ہے۔نتائج کس طرح مسلم لیگ نون کے حق میں ہو سکتے ہیں،اس کیلئے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ ماضی گواہ ہے کہ اس سیاسی جماعت نے اپنی کامیابی کیلئے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کیا اور اس وقت بھی وہ یہی چاہتی ہے کہ جس طرح ماضی میں پیپلز پارٹی کیلئے پنجاب کے دروازے جبراً بند کئے گئے،اس مرتبہ تحریک انصاف کیلئے وہی راستہ اپنایا جائے جو اس وقت ممکن نظر نہیں آتا۔اب مسلم لیگ نون کیلئے ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنی انتخابی مہم چلانے کیلئے گلیاں سنجیاں کر سکے کہ ایک طرف عمران خان کا طوطی بول رہا ہے تو دوسری طرف زرداری، شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی قیمت طلب کر رہا ہے۔ریاستی مشینری میں چن چن کر اپنے ’’وفاداروں‘‘کی تعیناتی کروائی جا چکی ہے،جو کسی بھی طرح نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں ،اس کے باوجود تسلی نہیں ہو رہی اور نہ اطمینان نصیب ہے کہ ماضی کی طرح پنجاب میں جھرلو پھیرا جا سکے۔علاوہ ازیں! ابھی تک آئین و قانون میں عام انتخابات سے نظریں چرانے کی سعی اپنی جگہ موجود ہے غرضیکہ ہر حیلہ بہانہ اپنایا جا رہا ہے کہ کسی طرح انتخابات سے منہ موڑا جا سکے،میدان میں اترنے کی ہمت نہیں ہو رہی،میدان میں مقابلہ کرنے کی سکت دکھائی نہیں دیتی لیکن عوامی مقبولیت کے دعوے مسلسل کئے جا رہے ہیں۔ میدان میں اترے بغیر کامیابی کیسے مل سکتی ہے اور میدان میںاترنے کی طرف طبیعت بھی مائل نہیں،مسلم لیگ نون کیلئے اس سے زیادہ شکست اورکیا ہو گی!!

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button