ColumnImtiaz Aasi

دہشت گردی کی شکار سیاحت .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان اپنے قدرتی حسن اورتاریخی حیثیت سے کسی سے پیچھے نہیں۔بلندوبالا پہاڑوں کے درمیان سے گذرتی سٹرکیں اور انگریز دور کا بچھایا ہوا ریلوے ٹریک اور ندی نالوں پر بنائے ہوئے پل صدیاں گذرنے کے باوجود اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔پہلے ہم درہ بولان کی بات کرتے ہیں جہاں انگریز سرکار نے 1879میںپہلی ریلوے لائن بچھائی اور 1887میں یہاں سے پہلی ریل گاڑی کو درہ بولان کے بلند وبالا پہاڑوں اور سنگلاخ چٹانوں سے نومقامات سے سرنگوں سے گذارا گیا۔یہ ٹریک اپنے حسن وجمال اور دلکش شکل میںاب بھی موجود ہے ۔یہاںسانپ کی طرح نوکیلے اور چمک دار پتھر دلوں کو بہاتے ہیں۔ 88کلو میٹر لمبا درہ بولان کا یہ ریلوے ٹریک کبھی ایران اور افغانستان سے آنے والے تجارتی قافلوں کی گذرگاہ تھا۔درہ بولان کرد قبیلے کے سردار کے نام سے منسوب ہے جس کی بولان نسل آج بھی یہاں آباد ہے۔افغانستان کے حکمران بولان کے راستے بلوچستان اور سندھ جایاکرتے تھے۔ضلع لسبیلہ میں واقع دنیا کا واحدتاریخی آتش فشاںہے جس سے آگ کی بجائے مٹی نکلتی ہے۔یونیسکو نے جسے عالمی ثقافتی ورثہ ڈکلیر کیا ہوا ہے ۔کوہ سلیمان جو کبھی ضلع گوادر میں تھا،اب ضلع شیرانی میں آگیا ہے۔ یہ وہی کوہ سلیمان ہے جہاں حضرت سلیمان ؑ نے تخت لگایا تھا اور ھد ھد کو ملکہ سبا کے تخت سمیت لانے کا حکم دیا تھا۔کوہ سلیمان پہنچنے کیلئے چھ گھنٹے گھوڑے اور تین گھنٹے پیدل چل کر پہنچا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں غیر ملکیوں کا آج کل داخلہ منع ہے وزارت داخلہ سے این او سی لیے بغیر کوئی غیر ملکی صوبے میں داخل نہیں ہو سکتا۔سبی کا علاقہ اپنی جگہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے یہاں موہنجوداڑو تہذیب سے تین ہزار سال قبل پہلے کی تہذیب کے آثار اب بھی موجود ہیں یہاں فرانسیسیوں نے بہت کام کیا، کبھی یہ جگہ غیر ملکی سیاحوں کا مرکز تھی۔یہاں کی مہرگھر تہذیب کے نام پر فرانس میں ایک میوزیم بھی ہے اور اس تہذیب کی خاص بات یہ ہے یہاں جنگلی جانوروں کو سب سے پہلے پالتو بنانے کا آغاز ہوا تھا گویا اس لحاظ سے مہر گھر تہذیب کی اپنی انفردیت ہے۔تربت میں پنوں جو کبھی وہاں کا شہزادہ تھا اس کے محل کے کھنڈرات اور قبر کے آثا ر یہیں ہیں روایات کے مطابق سسی بھی یہیں مدفون ہے۔ بلوچستان کا علاقہ پنجگور اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے یہاں پانچ صحابہ کرام ؓ کی قبریں ہیں اسی مناسبت سے اس جگہ کا نام پنجگور رکھا گیا ہے بعض لوگ پنجگور کو قبروں کا علاقہ بھی کہتے ہیں۔بلوچستان کے سیاحتی مقامات کی بات کریں تو زیارت میں صنوبر کے جنگلات سیاحتی اعتبار سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ضلع لسبیلہ میں واقع National Habitat Park Hingol وہ مخلوق جو دنیا میں بہت کم پائی جاتی ہے، کی قدرتی قیام گاہ ہے یہ وہ علاقہ ہے جہاں پہاڑ، دریا ، ندی اور سمندر اس پارک کا حصہ ہیں۔ گوادر کے قریب ہنگلاج دیوی کا مندر جو پاکستان میں ہندووں کا سب سے مقدس ترین مقام ہے یہاں والڈ لائف پارک بھی موجود ہے تاریخی اہمیت رکھتا ہے ۔د ہشت گردی سے پہلے غیر ملکی سیاحوں کا یہاں تانتا باندھا رہتا تھا ۔انگریز سرکار نے زیارت کی سیاحتی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئٹہ سے زیارت کے قریب ریلوے ٹریک بچھایا تھا ۔یہاں صنوبر کے جنگلات کے پھولوں کی خوشبو سے پورا علاقہ معطر رہتا ہے۔دو سال قبل صنوبر کے جنگلات میں آتشزدگی سے جنگلات کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ دہشت گردی سے پہلے غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے ہمارا ملک خاصا زرمبادلہ کماتا تھا جو بدقسمتی سے دہشت گردی کی نذر ہو گیا ہے۔گوادر کے پانیوں سے سبھی واقف ہیں جب سے گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کا کام شروع ہو ا ہے اور یہاں غیر ملکی بحری جہازوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا ہے دنیا کی نظریں گوادر پر ہیں۔ہم آمریت کے خلاف بات تو کرتے ہیں گوادر کی تعمیر کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا ۔بلوچستا ن کے بڑوں کی مخالفت کے باوجود گوادر کی تعمیر کا کام چین کے تعاون سے شروع ہوا۔بندرگاہ کی چند برتھیں فنکشنل ہوئی ہیں جب تمام برتھیں فنکشنل ہوں گی تو تجارتی انقلاب برپا ہو جائے گا۔گوادر کی تعمیر سے قریبی ملکوں جن کی بندرگاہیں بین الا قوامی تجارت کا اب تک مرکز بنی ہوئی ہیں گوادر کے پوری طرح فنکشنل ہونے کے بعد ان کی اجارہ اجاری کا خاتمہ ہو جائے گا ۔مشرف سرکار نے سندھک کا منصوبہ چینوں کے حوالے کرکے گوادر کی تعمیر کا آغاز کیا جو مشرف کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔گوادر کے ساتھ کوسٹل ہائے وے کی تعمیر اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔ گوادر کے باسیوں کی بڑی شکایت یہ ہے آئین نے انہیں گوادر سے مچھلیاں پکڑنے کی آزادی ہے تو وفاق مچھلیوں کا کنٹریکٹ غیر مقامی لوگوں کو کیوں دیا جاتا ہے ۔گوادر کے رہنے والوں کا سب سے بڑا روزگار مچھلیاں پکڑنا ہے جس سے وہ محروم ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا گوادر میں آئے روز وہاں کے رہنے والوں کااپنے مطالبات کے حق میں احتجاج جاری رہتا ہے ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مملکت پاکستان کو اپنی بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے ۔قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اگر تم ہماری نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو نہیں کر سکتے ہو۔بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں قدرت کے خزانوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا تو پورے ملک میں قدرتی خزانوں اور سیاحتی مقامات کا شمار کیسے ممکن ہے؟ ۔گویا کہ بلوچستان کا چپہ چپہ سیاحتی اور تاریخی اہمیت میںملک کے تمام صوبوں سے منفرد حیثیت رکھتا ہے۔مصر،ترکی بھارت اور مراکش کے علاوہ دنیا اور دیگر ممالک سیاحت سے اربوں ڈالر کما سکتے ہیں تو ہمارا ملک اس سے کیوں محروم ہے ۔عمران خان کے دور میں سیاحت کی طرف توجہ دینے کا آغاز تو ہوا لیکن ہماری تمام حکومتیں سیاحت کی طرف پوری توجہ دینے سے قاصر رہی ہیں۔ اے کاش ہمارا ملک پھر سے امن کا گہوارہ بن جائے اور بلوچستان کے علاوہ ملک کے دیگر سیاحتی مقامات پر غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو جائے تو ہمارا ملک سیاحت سے خاصا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button