Ali HassanColumn

کچھ تو مداوا کریں .. علی حسن

علی حسن

 

کون جانے کیا سچ ہے ؟ شبر زیدی، قیصر بنگالی سمیت اکثر معاشی ماہرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کر گیا ہے لیکن حکمرانی کرنے والی ایک آصف علیزرداری کہتے ہیں کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر گیا تو فرق نہیں پڑے گا۔جاپان، امریکہ اور برطانیہ نے بھی دیوالیہ ہونے کا سامنا کیا تھا۔ غریب کی پکار اللہ ضرور سنے گا، اس کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں۔ ملک ڈیفالٹ کرتا ہے یا نہیں، کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عام آدمی دیوالیہ ہو گیا ہے۔ عام لوگ دکانوں اور ٹھیلوں سے قیمتیں معلوم کر کے خاموشی سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی جیب اجازت ہی نہیں دیتی کہ وہ انہیں بتائی گئی قیمت پر اپنی ضرورت کی اشیاء خرید سکیں۔
یہ ہولناک اور دل خراش خبر سے آغاز کرتے ہیں کہ صوبہ پنجاب کے حاصل پور شہر میں شوہر اور بیوی نے مل کر پہلے اپنے دونوں کمسن بچوں کو زہر دیا۔ ان کی ہلاکت کے بعد خود بھی زہر پی کر اپنی اپنی زندگی ختم کر لی۔ یہ خاندان کرائے کے مکان میں رہتا تھا ۔ ذریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے شدید پریشانی میں مبتلا تھے۔ کم سن بچوں نے دودھ لانے کی ضد کی تو شوہر اور بیوی نے بچوں سمیت اپنے آپ کو ہمیشہ کیلئے ختم کرلیا۔گزشتہ تین ماہ سے اپنے مکان کو کرایا بھی ادا نہیں کر سکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بجلی کابل ۷۵۰۰ا روپے کا آگیا تھا۔ واپڈا والے بجلی کا میٹر اتار کر لے گئے تھے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ،ملک کے مختلف حصوں میں آئے دن اس طرح کے واقعات سامنے آرہے ہیں لیکن افسوس ناک یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ، صوبائی اور وفاقی حکومت تو دور کی بات رہے، اہل محلہ بھی توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی انتہائی ضرورت مندوں کی خبر گیری رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں میں احساس نام کی چیز ہی مر گئی ہے۔ چار افراد ہلاک ہوگئے ہیں بس ایک واقعہ سمجھ کر خبر پڑھی ہوگی اور لوگ آگے بڑھ گئے ہوں گے۔ بہر حال ہر فرد کی موت اہمیت رکھتی ہے اور اس کا جواب تو وقت کے حکمرانوں کو دینا ہی ہوگا۔ کہاں، کب اور کیسے، یہ تو قدرت ہی جانے۔ آئے دن سوشل میڈیا پر خبریں گشت کرر ہی ہیں کہ وسائل سے محروم لوگ سخت ترین پریشانی کا شکار ہیں۔ حکمران طبقہ کسی مداوا کا قدم اٹھانے پرغور نہیں کر پارہے ہیں۔
سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری حیدرآباد ایوان صنعت و تجارت سمیت کئی مقامات پر گئے۔ایسا لگتا تھا کہ ان کے پروٹوکول کے سوا کسی اور گاڑی کا گزر ہی نہیں تھا۔ان کے پرٹوکول میں درجنوں گاڑیاں تھیں۔ ان کی آمد کے دوسرے روز ہی حکومت سندھ نے وزیراعظم کے حکم پر سرکاری سطح پر اخراجات میں کمی کا اعلان کیا ہے اور صوبائی محکمہ خزانہ نے اس ضمن میں حکم نامہ جاری بھی کردیا ہے۔ دیر آئد درست آئد۔ حکم نامے کے مطابق کابینہ کے ارکان سے سکیورٹی ڈیوٹی کی آدھی گاڑیاں (تمام کیوں نہیں ) واپس لی جائیں گی اور تمام محکموں کی خالی پوسٹیں ختم کردی جائیں گی اور نئی ملازمتیں دینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ملک کے مجموعی طور پر معاشی حالات کسی صورت میں بہتر نہیں ہیں۔ حکومتیں جو کفایت شعاری کے اقدامات کر رہی ہیں، وہ بہت تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں۔ حکومت کرنے والوں کو اندازہ نہیں ہو سکا کہ ملک کی معاشی صورتحال فوری سخت ترین اقدامات کی متقاضی ہے۔ پاکستان جس طرح قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس میں تو آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی توقع رکھنا ہی فضول بات تھی۔ یہ کوئی قابل قدر بات نہیں کہ کسی بھی قرض کی امید پر اخراجات جاری رکھے جائیں۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں شامل افراد کو ادراک ہی نہیں کہ کشتی بلا ضرورت خشکی کی طرف آرہی ہے اور کسی کشتی کے بلا ضرورت خشکی میں آنا کشتی اور مسافروں کیلئے بہتر نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح آیا توکشتی پھنس جاتی ہے یا مسافروں کا سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس کی اس خبر کو پڑھ کر ہی اندازہ ہو جائے گا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ کمیٹی نے ججوں اور فوجیوں سمیت تمام سرکاری افسران کو ملنی والی مراعات اور پلاٹس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل کو ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ کا آڈٹ کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ کمیٹی کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے کہا کہ عوام کے پیسے کیسے کہاں خرچ ہورہے ہیں؟ہر ادارے میں پرفارمنس آڈٹ ہونا چاہیے، کس کو کتنے پلاٹ ملے ہیں، تفصیلات کمیٹی کو بتائی جائیں۔ اجلاس میں ریونیو ڈویژن سے متعلق سال ۲۰۲۱۔۲۰۲۲کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ بھی لیا گیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ کمیٹی نے ہدایت کی تھی کہ ایک ضلع یا صوبے میں تین سال سے زیادہ تعینات رہنے والے افسران کی فہرست فراہم کی جائے، کیا ان افسران کی فہرست آپ تک پہنچ گئی ہے؟ آڈٹ حکام نے کہا کہ وہ فہرست ہمارے پاس نہیں آئی ، چیئرمین نے کہا کہ ایف بی آر ہر بندے سے پوچھے کہ آپ انکم ٹیکس کتنا دیتے ہیں، گھر کیسے بنایا، پلازہ کیسے خریدا؟چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے) سے ابھی تک معلومات ہمارے پاس نہیں آئیں۔ چیئرمین نے کہا کہ اگر کوئی فرد تین چار کروڑ کی دکان خرید رہاہے تو ان کا ریکارڈ چیک کیا جانا چاہیے۔ نور عالم خان نے کہا کہ ایک دن وہ پشاور سے آرہے تھے تو سری نگر ہائی وے بلاک کی گئی تھی۔ سڑکیں کس طرح بند کی جاسکتی ہیں۔ ہم نے سیکرٹری داخلہ کو خط لکھ دیا ہے کہ یہ غیر قانونی کام نہ کیا جائے۔ وی آئی پی کلچر کوختم نہیں کیا جارہا ہے ۔
فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے پیر کو ملک کی دس سرکردہ کاروباری شخصیات سے ملاقات کی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی موجودگی میں انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان مشکل معاشی حالات سے کامیابی سے باہر نکل آئے گا، ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل چکا ہے، ملک ترقی کرے گا اور ہم ایک خوشحال قوم بن کر ابھریں گے۔انہوں نے کاروباری افراد سے کہا کہ وہ پرعزم اور پراعتماد رہیں۔ کاروباری افراد نے فوج کے سربراہ سے ملاقات کی درخواست کی تھی جس میں دس کاروباری افراد کو مدعو کیا گیا تھا ان میں سے پانچ کا تعلق کراچی جبکہ پانچ کا لاہور سے بتایا جاتا ہے۔ یہ بہت اچھی خبر ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ غریب کی موت سے قبل اس کی مشکلات کا کوئی مداوا کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button